ای یو ڈس انفو لیب رپورٹ

بدھ 16 دسمبر 2020

Asees Khan

اسیس خان

ای یو ڈس انفو لیب کی تحقیقاتی رپورٹ انڈین کرانیکلز میں ہونیوالے انکشافات سے معلوم ہوتا ہے کہ سری واستو گروپ (جس کے بارے میں زیادہ امکان ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا تیار کردہ گروپ ہے) نے متعدد این جی اوز ، سیکڑوں میڈیا ویب سائٹس بنا رکھی ہیں۔ بھارت کے کچھ بڑے میڈیا ادارے بھی اس گروپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس گروپ کا مقصدبھارتی مفادات کو تحفظ دینے اور پاکستان کے خلاف لابنگ کےلئے مختلف طریقے استعمال کرنا ہے۔

یہ گروپ پاکستان مخالف معلومات کو پھیلانے، رائی کو پہاڑ بنانے اور مختلف این جی اوز کے ذریعے سے پاکستان کے خلاف سرگرمیاں منعقد کروا کر اور مختلف شخصیات کے انٹرویوز کر کے انہیں بہت بڑھا چڑھا کر انڈیا اور دنیا بھر میں پھیلاتا ہے۔

(جاری ہے)

انڈیا کی سب سے بڑی سرکاری نیوز ایجنسی ایشین نیوز ایجنسی(اے این آئی) اس کام میں سب سے اہم کردار ادا کر رہی تھے، اس کے علاوہ ریپبلک ٹی وی، بزنس ورلڈ اور دیگر ادارے بھی اس کام میں شامل ہیں۔


یہ گروپ مختلف این جی اوز کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تنگ آکر ملک چھوڑ کر بھاگ جانے والوں کو بھی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور ان کی گفتگو کو پھر ان نیوز اداروں کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف این جی اوز کے ذریعے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف انسانی حقوق کمیشن اور یورپی پارلیمنٹ وغیرہ کے سامنے احتجاج منعقد کروانے اور انہیں پھیلانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔


اس گروپ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں بلوچستان، گلگت بلتستان، پختونخوا، فاٹا اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے مختلف افراد اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے نمائندگان کو بھی بات رکھنے کے مواقعے فراہم کئے ہیں۔ کئی لوگوں کو تو ایسی این جی اوز کے پلیٹ فارم سے یہ موقع فراہم کیا گیا جن کا اصل کام کاشتکاری وغیرہ سے متعلق تھا۔


اس عمل میں گلگت بلتستان سٹیڈیز ، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بلوچ ویمن کمیشن، پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کام کرنیوالی تنظیموں، پشتون تحفظ موومنٹ، متحدہ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی سمیت دیگر تنظیموں کو انسانی حقوق کمیشن میں اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کیا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان لوگوں کو بات رکھنے کا حق نہیں تھا، یا ان کے اٹھائے گئے ایشوز کو عالمی سطح پر زیر بحث نہیں آنا چاہیے۔

نہ ہی ان تنظیموں کی ساکھ کو متاثر کرنا مقصد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ ایک ملک کے ایک گروپ کی پراکسی بن کر کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی جن تنظیموں اور شخصیات کے نام لکھے گئے ہیں ان میں یو کے پی این پی، نیشنل ایکولیٹی پارٹی اور جے کے نیپ سرفہرست ہیں، گلگت بلتستان سٹڈیز موجود ہے اور ایک تنظیم جموں کشمیر پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ ہے۔

یو کے پی این پی کے سربراہ شوکت علی کشمیری اور اہم عہدیدار جمیل مقصود کے نام لکھے گئے ہیں اور مختلف پروگرامات میں انکی موجودگی اور تقاریر بھی دکھائی گئی ہیں جنہیں مختلف میڈیا میں نشر کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ نیشنل ایکولیٹی پارٹی کے سربراہ سجاد راجہ کا نام بھی لکھا ہے اور کچھ تقاریب میں انکے خطاب کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں،نیشنل عوامی پارٹی کے کسی فرد کا نام نہیں لکھا گیا، بھارتی زیر انتظام کشمیر سے جنید قریشی کا ذکر کیا گیا ہے اور انکی کچھ میڈیا کوریج بھی شامل کی گئی ہے۔

جموں کشمیر پی ڈی آئی کے امجد ایوب مرزا کا نام لکھا گیا ہے۔ اور انکی میڈیا کوریج بھی رپورٹ میں شامل کی گئی ہے.
واضح رہے کہ ان تمام احباب کی پاکستانی زیرانتظام کشمیر و گلگت بلتستان میں کوئی خاص پہچان اور فوٹنگ موجود نہیں ہے، تاہم عالمی اداروںمیں نمائندگی اور این جی اوز کے زریعے ادا کئے جانیوالے کردار میں یہ شخصیات نمایاں نظر آتی ہیں۔


گزشتہ سال پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بننے والے قوم پرست و ترقی پسند تنظیموں کے اتحاد میں بھی کچھ تنظیموں نے یو کے پی این پی اور لبریشن فرنٹ یاسین ملک گروپ کو شامل نہ کرنے کی پوزیشن لیتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ایک تنظیم بھارتی اور دوسری پاکستانی پراکسی کے طور پر کام کر رہی ہے۔ جبکہ کچھ تنظیموں نے جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی پر بھی اعتراض کیا تھا کہ برطانیہ میں ان کی تنظیم کی سرگرمیاں بھارت نواز یا بھارتی پراکسی تنظیموں کے ساتھ مل کر ہو رہی ہیں اس لئے یا ان سے علیحدگی کی جائے یا پھر اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کی جائے۔ یہ اتحاد تو لمبا نہ چل سکا البتہ برطانیہ میں قائم اتحاد کافی لمبے عرصے سے چل رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :