نیکی کر سوشل میڈیا میں ڈال

پیر 20 اپریل 2020

Asif Khan

آصف خان

اس وقت سوشل میڈیا ہوں یا الیکٹرانک میڈیا ہوں پوری دنیا کا موضوع بحث اور درد سر کرونا واٸرس بنا ہوا ہے۔کرونا اس وقت پوری اقوام عالم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ تیزی سے پھیلتا ہوا یہ وائرس اس وقت کئی انسانی زندگیوں کو نِگل چکا ہے۔ ہر شعبہِ زندگی اس سے بُری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ تمام بین الاقوامی ممالک کے آپس میں روابط بند ہو چکے ہیں۔

پروازوں کا کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اور ہر ملک کی معیشت پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔جس سے ہر شعبہِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
لیکن کراچی کی سڑکوں پر کہیں بہروپیوں نے ڈھیرے ڈال دیںجو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، حاجت مند اورضرورت مندوں کا حق مارتے ہیں اس  مصیبت و بحرانی کفیت میں بھی  مال جمع کرنے کا موقع سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)


کراچی تاریخ گواہ ہے جب بھی  کوئی گھڑی ہو یا کوئی جشن و تہوار، کراچی کے شہری مال خرچ کرنے سے نہیں گھبراتے، اس کا عملی مظہر پورے سال مختلف انداز میں شہر کراچی میں دیکھنے کو ملتا ہے، ماہ رمضان میں سڑکوں کے کنارے پر بڑے بڑےافطار کے دسترخوان ہوں یا سیلانی ،عالمگیر  ایدھی اور جے ڈی سی کے تحت ضرورت مند اور نادار افراد کو دوپہر اور رات کے کھانے کی فراہمی ”، کراچی کی عوام دل کھول کر ان کارخیر میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔


ان لاک ڈاون کے باعث اب شہر کراچی میں تجارتی، کاروباری، سیاسی، اور سماجی سرگرمیاں مفلوج ہو گئیں ہیں تو بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کراچی کی عوام اپنے مفلس و نادر بھائیوں کو تنہا چھوڑ دیں، یہی وجہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ تاہم مشکل کی اس گھڑی اور آفت کے اس موقع پر بھی ایک مفاد پرست اور موقع پرست ٹولہ ایسا ہے جو مزدوروں کالبادہ اوڑھ حق دار کا حق غضب کرنے میں مصروف ہے۔


انکا طریقہ وردات اس طرح ہوتا ہے  مزدوری کے آلات ولوازمات لیے شہر کی سڑکوں کے کنارے قاٸم فٹ پاتھوں پر قطار بنائے شکار کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور جیسے ہی کوئی رحیم دل شخص ان کو ضرورت مند سمجھتے ہوئے راشن بیگ اور کرنسی نوٹ لے کر ان کے پاس جاتاہے تو یہ ٹولی  کی صورت میں اس پر اس بری طرح حملہ آور ہوکر جپھٹ جاتے ہیں کہ جیسے مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے ہوں اس صورت حال میں امداد کرنے والے کا اپنی جان بچانا مشکل ہو جاتاہے اور وہ امدادی سامان جیسے تیسے ان کے حوالے کر کے اپنی جان چھڑاتا ہے۔


جبکہ دوسری طرف  معاشرے میں موجود ایک طبقہ سفید پوشوں پر مشتمل ہے، یہ وہ لوگ ہوتےہیں جو ہاتھ پھیلانا تو درکنار کی بات ”، اگر کوئی ان کو ترس بھری نظر سے بھی دیکھے توان کو ناخوشگوار گزرتا ہے۔ حالات خواہ کتنے ہی مخدوش کیوں نہ ہوں یہ اپنے احوال کا تذکرہ کسی بھی نہیں کرتے، مبادہ کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اس سے کسی مالی امداد کی توقع لگائی ہوئی ہے۔

ایسے لوگ نہ تو راشن کی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور نہ امدادی سامان حاصل کرنے والوں کی فہرستوں میں اپنے نام کا اندراج کرتے ہیں۔
بہت سارے ایسے بھی ہیں جو نہ حکومت کی جانب سے دی گئی امدادی پیکیج سے استفادہ کرتے ہیں اور نہ ہی فلاحی اداروں کی امدادی اسکیموں سے کیونکہ ان کی عزت نفس گوارا نہیں کرتی کہ وہ تحقیرآمیز رویے کا سامنا کریں۔

تاہم ان افراد تک پہنچنا ایسا کچھ مشکل بھی نہیں ہے، ایسے افراد ہر علاقے، ہر بستی، ہر خاندان میں ہوتے ہیں، ان کو پہچاننے کے لیے صرف قریب کی نگاہ اچھی ہو نے اور بلا تشہیر کسی کی مدد کرنے کے جذبے کی ضرورت ہے۔
ایک جانب جہاں خدمت خلق کے جذبے کو دیکھر دلی خوشی محسوس ہوئی، وہیں کچھ ایسے مناظر بھی سوشل میڈیا میں نظروں سے گزرے کہ دل چیر کر رہ جاتا ہے، جیسے کہ کہیں چار پانچ افراد نے ایک آٹے کی بوری کسی غریب کو دیتے ہوئے فوٹو سیشن کرارہے ہیں تو کہیں کسی شوبازنے کسی ضرورت مند کو نوٹ تھماتے ہوئے سیلفی لی اور اسٹیٹس اپڈیٹ کر دیا، کہیں ایک ہزار کا نوٹ پکڑاتے تشہیر کی گئی تو کہیں فقط صابن کی ایک ٹکیہ۔

غرض یہ کہ امداد کے نام پرجس طرح ریاکاروں نے انسانیت کی تذلیل کی، اس رویے سے درد دل رکھنے والوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں نیکی کر سوشل میڈیا پر ڈال کی ایک روایت قاٸم ہونا شروع ہوگٸی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :