کھرا سچ !!!

پیر 19 جولائی 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

میں نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں علماء اکرام اور واعظ حضرات حقوق اللہ کی تعلیم کثرت سے دیتے ہیں ، جس میں ایمانیات اور عبادات شامل ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام اپنے عقائد کے اعتبار سے بہت پکے مسلمان ہیں ماشاءاللہ!!! ہمارے ہاں  پکے نمازی ،قاری ، روزہ دار ، حاجی، غازی اور مجاہد بکثرت پائے جاتے ہیں ، جس پر جتنا بھی فخر کیاجائے ، وہ کم ہے ۔

مگر حقوق العباد کی تعلیم کم ہی دی جاتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے  کہ پاکستانی معاشرہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ بننے میں ناکام نظرآتا ہے حالانکہ ہم مذہب کے نام پر لڑنے مرنے کو بھی ہو تیار ہوجاتے ہیں ۔ مگرہماری اخلاقی اقدار میں روز بروز گراوٹ بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ مجموعی منظر نامہ یہ ہے کہ مولوی / اساتذہ بچوں کا  ڈاکٹرز مریضوں کا ،  جبکہ وکلاء اپنے موکلوں کااستحصال کررہے ہیں ،فحش گو ٹک ٹاکرز "ستارے" کہلاتے ہیں ، بالی ووڈ اسٹارز کو سارا دن میڈیا کوریج دیتاہے، آخر کیوں؟؟؟ ۔

(جاری ہے)

اداکار رمضان میں ٹی وی پر بیٹھ کر اسلام سکھارہےہیں ۔ ہماری افسرشاہی رشوت خور ہے ۔ تاجر ، دکاندار حتی کہ عام پھل / سبزی فروش ، گوالا تک ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی بیشی کررہے ہیں ۔ ہمارے کئ سیاستدان بدعنوان ہیں ۔ ہمارا  نظام عدل و انصاف کے تقاضے پورا کرنے میں ناکام ہے۔ ہمارا معاشرہ عورت کو اس کا جائز مقام دینے پر تیار نہیں ، جو ازروئے اسلام خواتین کا مسلمہ حق ہے ۔

عورت گھر سے باہر ہےتو عزت محفوظ نہیں ، گھر کے اندر گھریلوں تشدد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اسی کو لےکر لبرلز کو سیکولرازم کے پرچار کے نادر مواقع میسر ہیں ۔ ہمارا معاشرتی توازن اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ قرار دینا عام سی بات ہے ۔ کمزور کے مقابلے میں طاقتور کی برتری کو چیلنج کرنے کےلیے ہمارا معاشرہ کبھی آمادہ نہیں ہوتا ، مظلوم کی بےبسی کا تماشا بنایا جاتاہے ۔

ہم سب جانتے ہوئے بھی غلط کا ساتھ چھوڑنے کی زحمت نہیں کرتے ، شاید ضمیر مرگئے ہیں ۔ ہم انتخابی سیاست کے موقع پر انہی سیاستدانوں کےلیے لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں جوکہ ہمیں جانتے تک نہیں !!! قصور ہمارا نہیں بلکہ ہماری معاشرتی اقدار کا ہے ، جہاں نفرتیں اور مشکلات تقسیم کی جارہی ہیں ، کوئی بھی آسانیاں ، محبتیں اور چاہتیں بانٹنے کو تیار نہیں ہوتا ۔

ہر دوستی غرض کی ، ہر رشتہ مطلب کا ہے اور مخلص انسان ہمیشہ تنہا رہ جاتاہے ۔ ہوسکتاہے کہ آپ کو کسی نے دھوکہ دیا ہو مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ آگے چل کر آپ کسی دوسرے کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں ۔ ہمیں چاہئے کہ معاف کرنا ، رحم کرنا سیکھ لیں اور کسی ضرورت مند کی مدد ، دکھی انسان کے ساتھ حسنِ سلوک اور ہمدردی سے پیش آئیں۔اگر ہم میں سے ہر ایک شخص اپنی اصلاح کی کوشش کرے تو دوسرے لوگ بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے اچھائی کا راستہ ضرور اپنائیں گے۔

ہماری معاشرتی زندگی تلخ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم حقوق العباد کو بھلا بیٹھے ہیں ۔ اکثرلوگ دوسروں کا حق ادا کرنے بجائے سلب کرنا چاہتے ہیں۔ایک کے آنسو دوسرے کےلیے جائے تماشا نہیں ہونے چاہئیں۔ چند روز بعد عیدالاضحی کا موقع ہے ۔ عید الاضحی کا بنیادی فلسفہ ایثار و قربانی سے عبارت ہے ۔ ہوسکے تو اس موقع پر اپنی اناوں کی بھی قربانی دے دیں اور غرور کے بتوں کو پاش پاش کردیں ۔

یہ جھوٹی انا اور غرور ہماری زندگیوں کو اجیرن کرچکے ہیں ۔دوسروں کے بارے میں ضد ،حسد ، بغض ، کینه اور منافقت کو بھی خیرآباد کہنے کا حوصلہ پیدا کیجئے۔ مثبت سوچ کو فروغ دیجئے اور دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھیے۔ بدگمانی سکون میں دراڑیں ڈال دیتی ہے ، جنہیں مٹانا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ حرام کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک وقوم کو بدعنوانی اور رشوت خوری کی دلدل سے باہر آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے راہروی کا شکار ہونے والوں کو بھی ہدایت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صدق دل سے توبہ واستغفار کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :