اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی

بدھ 29 دسمبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

کسی بھی ملک میں جمہوری نظام کی بقاء کےلیے اختیارات کو مقامی سطح پر منتقل کرنا بے حد ضروری سمجھا جاتاہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخواہ میں ایک نسبتاً بہتر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرنے کےلیے جو اقدامات کیے ، وہ قابلِ تعریف ہیں ۔ اگر بلدیاتی انتخابات تسلسل سے ہوتے رہے تو یقیناً اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

مگر خیبرپختونخواہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے آنے والے غیرمتوقع نتائج کے بعد یہ سوال کیاجارہا ہےکہ پھر آخر کیا وجہ رہی کہ حکومتی جماعت عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔ اس کی کئ وجوہات ہیں ، جیسے کہ ہم جانتےہیں ہیں کہ ایک عام آدمی کو عموماً قانون سازی ، کامیاب خارجہ پالیسی ( او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس ، افغان پالیسی)  اور معیشت وغیرہ  سے کوئی دلچسپی نہیں  ۔

(جاری ہے)

پھر ایک ایسا ملک جہاں عوام کی اکثریت کا معیار زندگی پسماندہ ہو ، وہاں غریبوں کی داد رسی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ حتیٰ کہ عام آدمی کو خوش رکھنے کےلیے ترقی یافتہ ممالک کے حکمران بھی  مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کےلیے کوشاں رہتےہیں تاکہ عالمی اقتصادی امور سے غریب طبقہ متاثر نہ ہونے پائے ۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت ملکی معیشت میں بہتری کے دعوے کے باوجود مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں قلیل ذرائع آمدن رکھنے والے طبقات حکومتی​ کارگردگی سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بےپناہ اضافے نے عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیاہے۔ جب حکمران غریب کا پیٹ نہیں بھرسکتے تو پھر  شاندار ترین دیگر کامیابیاں بھی گہنا جاتی ہیں ۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے کےلیے ضروری اقدامات کرتی تو عوام کا اعتماد بحال ره سکتاتھا۔

تحریک انصاف کے بقول ان سے بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران کئ غلطیاں ہوئیں ، اس سلسلے میں کئ وجوہات گنوائی جارہی ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی تمام تنظیمات کو تحلیل کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ اگر دیکھاجائے تو تنظیم سازی انتخابی تیاریوں سے پہلے مئوثر طریقے سے مکمل ہوجانی چاہیے کیونکہ انتخابی شکست کے نقصان کا ازالہ بعدازاں نئی تنظیم سازی کے باوجود بھی اگلے انتخابات سے پہلے کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو فعال بنانے کےلیے مرکزی ، صوبائی اور مقامی سطح پر متحرک قیادت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بصورت دیگر حکمران جماعت پر بھی نااہلی اور نالائقی کی مہر ازخود ثبت ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ یہ ہی سبب ہے کہ اس وقت حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے حکومت کو نااہلی کا طعنہ دیاجارہاہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت کی گورننس بہتر نہیں ہوپارہی ہے ۔

انتظامی امور نمٹانے کےلیے ناتجربہ کار ذمہ داران  میں مطلوبہ مہارت کا فقدان ہے ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تحریک انصاف تیاری کے بغیر ہی اقتدار میں آئی ہے ۔ سیاسی طور پر ناتجربہ کار لوگ نت نئے مسائل کی گرداب میں پھنستے چلے گئےاور ان کےلیے بیوروکریسی سے نمٹنا بھی ایک چلینج بن کررہ گیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی انڈہ ، مرغی ، بکری وغیرہ جیسے مضحکہ خیز منصوبوں کا اعلان کیا۔

ہم نے دیکھا کہ خود عمران خان کو بھی فیصلے لینے میں مشکل پیش آئی ، جیسا کسی نے مشورہ دیا ، اسے ہی بلاسوچے سمجھے قبول کرلیا۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ اقتدار میں آتے ہی فرسودہ نظام میں اصلاحات کےلیے خاطرخواہ فیصلے کرتے مگر جس طرح سے قانون سازی کی گئ ، اس سے یہ تاثر سامنے آیا کہ حکومت خود ہی اصلاحات نہیں کرنا چاہتی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ بھی حکومتی حمایت سے پہلو تہی کرنے لگےہیں ۔

حکومت بدعنوان عناصر کا احتساب کرنے ، غیرملکی سودی قرضوں سے نجات دلانے جیسے وعدوں،  اور روزگار مواقع مہیا کرنے ( یعنی کروڑوں نوکریاں دینے) اور ڈیم فنڈنگ وغیرہ کو نتیجہ خیز بنانے میں بھی ناکام رہی ہے، جس کا حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ اپنے پانچ سالہ دور کا نصف سے زیادہ گزار لینے کے بعد اب آپ نہ تو مزید وقت طلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی سارا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر اپنی ناقص کارکردگی کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :