میرا سرمایہ ، میری اردو!!!

بدھ 12 جنوری 2022

Ayesha Noor

عائشہ نور

ہم وطن عزیز پاکستان کا اس لحاظ سے کئی دوسرے ممالک سے موازنہ نہیں کرسکتے، جہاں مشترکہ زبان اور ثقافت کا عنصر موجود ہے۔  ہمارے ہاں صورتحال یہ ہیکہ نہ صرف صوبائی بلکہ علاقائی سطح پر بھی  مختلف زبانیں اور ثقافتی رنگ موجود ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وفاق پاکستان کی بقا ان ہی بنیادوں میں مضمر ہے جو قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کیلیے طے کی تھیں یعنی مذہب اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا قیام (مذہب اسلام)ہمارا نصب العین قرار دیاتھا، یہ ہی وجہ ہے کہ سیکولر ازم ہمارے لیے زہرقاتل کی حثیت رکھتا ہے ،فرمان قائد ہے''ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کاٹکڑاحاصل کرنے کیلئے نہیں کیاتھابلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ بناناچاہتے تھے جہاں ہم اسلام کیاصولوں کوآزما سکیں''۔

اوردوسرا یہ کہ قائداعظم نے''اردو''کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیاتھا۔

(جاری ہے)

فرمان قائد ہے کہ''پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی ، اس کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں ہوسکتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہیکہ اردو زبان نے تحریک پاکستان میں اہم کردار نبھایا تھا ، کیونکہ متعصب ہندو طبقہ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیتے ہوئے اس کی جگہ ہندی کی ترویج کا خواہاں تھا۔

سچ تو ہے کہ  اردو زبان ادب مغلیہ دور میں وجود میں آئی ،  فارسی ، قدیم سنسکرت ، عربی اور ترک زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کے باہم میل جول کے باعث ایک نئی زبان کی بنیاد پڑی کیونکہ مغل فوج میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ موجود تھے۔ اسی نسبت سے یہ ''لشکری زبان'' کہلائی۔ اس نئی زبان کی ترقی میں مغلیہ دور کے ہندو اہل قلم نے بھی اپنا کردار ادا کیاتھا۔

گویا یہ برصغیر کی ایک مشترکہ زبان کے طور پر مقبول ہونے لگی  ۔ یہ نئی زبان اردو کہلائی، لفظ اردو ترک زبان کا لفظ ہے بمعنی لشکر ،لشکری !!یہ الگ بات ہے کہ 1867میں بنارس شہر سے برپا ہونے والے اردو ہندی تنازعے نے برصغیر کی اس مشترکہ لسانی میراث کے دوٹکڑے کردئیے۔ بنارس کے ہندوں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیا ، اردو سے عربی، فارسی، ترک الفاظ نکال کر پرانی سنسکرت اور پرانی ہندی شامل کردی  جبکہ فارسی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط میں اسے بطور الگ زبان''ہندی''متعارف کروایا اور اردو کی جگہ ہندی کے نفاذ کیلئے سیاسی تحریک چلائی ،چنانچہ تحریک علی گڑھ کے بانی سرسید احمد خان مذہبی بنیادوں پر زبان کے دوٹکڑے کئے جانے پر ہندوں اور مسلمانوں کے راستے الگ قرار دینے پر مجبور ہوگئے، یعنی وہ دوقومی نظریے کے قائل ہوگئے۔

آگے چل یہ ہی دوقومی نظریہ تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔ گویا اس نظریئے کو پروان چڑھانے میں اردو زبان کی بقا کی ضرورت نے بھرپور حصہ لیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اردو قومی زبان قرار پائی جبکہ بھارت نے ہندی کو قومی زبان قرار دیا۔ اگر دیکھاجائے تو بھارت میں اردو کو  غیرسرکاری حیثیت کے باوجود آج بھی ہندی پر برتری حاصل ہے کہ اردو ہی عام بول چال اور باہمی رابطے کی زبان ہے اور فنون لطیفہ کے فروغ کا بھی ذریعہ ہے اردو پورے پاکستان اور بھارت میں سب سے زیادہ سمجھی جانیوالی زبان ہے ۔

برصغیر کے نامور مسلم شعرا کا ادبی ورثہ بھی اردو زبان میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اردو زبان کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرناچاہئے تاکہ یہ سائنس و تکنیک کے تقاضوں پر پورا اتر سکے ، چنانچہ انگریزی سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ اور ترویج کی جائے تاکہ انگریزی پر انحصار نہ کرناپڑے۔ پورے ملک میں ذریعہ تعلیم صرف اردو ہونی چاہئے ۔

اور 1973کے آئین کے مطابق اور اعلی عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں  اردو کو پاکستان کی دفتری زبان بنانے کیلیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ دراصل انگریزی زبان کا پاکستان کی دفتری زبان کیطورپر نافذالعمل رہنا ماورائے آئین بھی ہے۔اردو زبان وفاق پاکستان کی بھی علامت ہے کیونکہ یہ بین الصوبائی رابطے کا ذریعہ ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ دیگر تمام صوبائی اور علاقائی زبانوں ، اور ثقافتوں کو اپنی جگہ پر قدرومنزلت اور پروقار مقام حاصل رہنا چاہئے اورانہیں بھی فروغ کے مواقع ملنے چاہئیں تاکہ وطن عزیز کا کوئی لسانی اور ثقافتی رنگ پھیکا نہ پڑے اور اس سرزمین کی زبان وثقافت کا ہررنگ چمن پاک کے گلدستے کا ایک پھول بن کر پوری آب و تاب سیکھلتارہے۔

اس مقصد کیلئے پاکستان میں موجود تمام صوبائی و علاقائی زبانوں کی تعلیم دینے ، ان کی ترقی و ترویج اور تمام ثقافتوں کے فروغ کے یکساں مواقع لازما فراہم کرنا ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :