چالاکیاں !!!

ہفتہ 27 نومبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

اس وقت ملک میں اداروں کا کردار و عمل ایک مرتبہ پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔  قومی چور کہلانے والے " شریف خاندان" نے ایک باقاعدہ ضدو ہٹ دھرمی مہم شروع کررکھی ہے ، تاکہ خود کو درست اور دوسروں کو صریحاً غلط ثابت کیاجائے ۔ اس سلسلے میں عدلیہ اور فوج کے کردار کو خاص طورپر متنازعہ بنایا جارہا ہے جوکہ ن لیگ کی جانب سے اداروں سے تصادم کی ایک نئی لہر ہے ۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2021میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فوج اور عدلیہ پر کیچڑ اچھالا گیا۔عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں غیر ملکی سفیروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو بلا کر پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف تقاریر کروائی گئیں ، اس میں ملوث  این جی اوز کو بیرونی فنڈنگ ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ایسی کانفرنس میں چیف جسٹس پاکستان کی شرکت پریشان کن ہے ،
 پھر ہوسکتاہےکہ قومی چور نواز شریف کے خطاب کو رکوائے جانے کا تاثر دینے کےلیے جان بوجھ کر انٹرنیٹ خراب کروا دیاگیا ہو ۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے بہرحال جس موثر طریقے سے علی احمد کرد کی نعرے بازی پر مبنی الزامات کا جواب دیا ، وہ قابلِ تعریف ہے۔ جہاں تک سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ منظر عام پر آنے کا معاملہ ہے تو جس طرح بیگم مریم صفدر نے جس یقین کے ساتھ پریس کانفرنس میں ببانگ دہل اعلان کیا کہ شریف خاندان کے افراد کو سزا دلوانے کےلیے عدلیہ پر دباؤ ڈالا گیا ، اس کے بعد پھر اس آڈیو ٹیپ کے فرانزک رپورٹ کی تیاری میں مداخلت کیوں کی جارہی ہے ؟ کیا ن لیگی قیادت کو اپنے خود کے دعووں پر بھی اعتماد نہیں رہاہے ؟  یاد رہے کہ ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کا فورینزک تجزیہ کرنے والے ادارے "گیریٹ ڈسکوری" نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ اُنھیں منگل کو ایک فون کال میں کہا گیا کہ اُن کی جانیں خطرے میں ہیں اور" فیکٹ فوکس"نامی ویب سائٹ ، جس نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو جاری کررکھی ہے ، اس کی فائل کا تجزیہ کرنے پر اُنھیں عدالت میں لے جانے کا بھی کہا گیا۔

ادارے نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ہماری ٹیم کو من پسند نتیجہ نکالنے کے لیے دھمکانا غیر اخلاقی ہے۔مسلم لیگ کی جانب سے دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے مخالفین کو بلیک میل کرنا ایک پرانا اور آزمودہ حربہ رہا ہے ۔ جسے ن لیگ نے اپنے دور حکومت میں ملکی ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کےلیے بھی خوب استعمال کیا۔ بیگم مریم صفدر کی آڈیو ٹیپ لیک ہونے کے بعد یہ ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان میں صحافت ہمیشہ  سیاسی جماعتوں کے دباؤ کا شکار رہی ہے ۔

خواہ وہ ڈرانا دھمکانا ہو یا اشتہارات روک کر بلیک میلنگ جیسے ہتھکنڈے ہوں ۔ توقع ہے کہ حکومتی  تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے یہ واضح ہوجائے گا کہ بیگم مریم صفدر جماعتی اشتہارات رکوانے کی بات کررہی تھیں یا سرکاری اشتہارات کی ؟ ن لیگ کی بھرپور کوشش رہے گی کہ اس معاملے کی تشریح "سرکاری اشتہارات" رکوانے کے طورپر نہ ہو پائے ۔ دوسری جانب ن لیگی قیادت سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو کو " ایون فیلڈ " مقدمے میں ریلیف حاصل کرنے کےلیے بھرپور طورپر استعمال کررہے گی ۔

اس امکان کے سدباب کیلئے مبینہ آڈیو کا بروقت جعلی ثابت ہوجانا ضروری ہے ۔ امید ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایسی گفتگو نہیں کی ہوگی.  ان تمام تر حالیہ واقعات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ سیاسی مافیاز کس حد تک اثرانداز ہورہے ہیں ، حتیٰ​ کہ ملکی سلامتی کے ادارے ، معزز جج صاحبان اور صحافت بھی ان کی بلیک میلنگ سے محفوظ نہیں ہیں ۔ اور یہ مافیاز اب تک عدالتی نظام اور ملکی قانونی ڈھانچے میں پائے والے سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احتساب ، اور سزاؤں سے فرار میں کامیاب نظرآتےہیں جوکہ باعث تشویش ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :