صدائے کشمیر

اتوار 23 جنوری 2022

Ayesha Noor

عائشہ نور

لندن کی ایک لا فرم " اسٹوک وائٹ" نے برطانوی پولیس سے بھارت کے آرمی چیف مکند نروانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ''جنگی جرائم" میں ملوث ہونےپر گرفتار کرنے کی درخواست دی ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق" اسٹوک وائٹ" نامی برطانوی لا فرم نے لندن کے میٹروپولیٹن پولیس کے جنگی جرائم یونٹ کو ایسے جامع شواہد جمع کرائے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مقبوضہ جموں و  کشمیر میں سماجی کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں پر تشدد، ان کے اغوا اور بیہمانہ قتل کے پیچھے قابض بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا ہاتھ ہے۔

لندن کی اس قانونی فرم نے سن 2020 اور 2021 کے درمیان پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے 2000 سے زائد شہادتیں پیش کی ہیں۔

(جاری ہے)

اس رپورٹ میں آٹھ نامعلوم سینیئر بھارتی فوجی اہلکاروں پر بھی کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کا دعویٰ ہے کہ اسے اس رپورٹ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے، بھارتی حکام کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہےکہ انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیاہے۔


"اسٹوک وائٹ" نے اپنی شکایت میں بھارت کے زیر انتظام متنازع خطے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہےکہ "اس بات پر یقین کرنے کی پختہ وجہ موجود ہے کہ بھارتی حکام جموں و کشمیر میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم اور دیگر ظلم و جبر کر رہے ہیں۔بھارتی حکام کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے لندن پولیس کو یہ درخواست اس کے "عالمی دائرہ اختیار" کے تحت دی گئی ہے، جو اسے دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔

بین الاقوامی قانونی فرم " اسٹوک وائٹ" کا خیال ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں  جنگی جرائم پر بھارتی حکام کے خلاف بیرون ملک قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
"اسٹوک وائٹ" میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر ہاکان کاموز نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ رپورٹ برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے اور بالآخر ان اعلیٰ بھارتی حکام کو برطانیہ میں داخل ہونے پر گرفتار کرنے پر قائل کرے گی۔

فرم کے مطابق کچھ بھارتی اہلکاروں کے برطانیہ میں مالیاتی اثاثے اور دیگر روابط بھی ہیں۔
کاموز کا کہنا تھا "ہم برطانیہ کی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان فراہم کردہ شواہد پر بھارتی حکام کے خلاف تحقیقات کریں اور ان کو گرفتار کرکے اپنا فرض ادا کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے.
"اسٹوک وائٹ" نے پولیس سے یہ درخواست گذشتہ ہفتے گرفتاری سے قبل تشدد کا سامنا کرنے والے کشمیری سماجی کارکن محمد احسن انتو اور کشمیری حریت پسند ضیا مصطفیٰ کے اہل خانہ کی جانب سے دائر کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ جیل میں قید مصطفیٰ کو 2021 میں بھارتی حکام نے ماورائے عدالت قتل کیا تھا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ہزاروں​ عام شہری شہید ہوچکےہیں۔کشمیری قیادت اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے بھارتی فوجی تسلط کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف اور مظلوم کشمیریوں پر مظالم ڈھانے اور بےجا گرفتاریوں پر سراپا احتجاج رہی ہیں۔سن 2018 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ان رپورٹس میں واضح طور پر یہ کہاگیاتھاکہ "بھارتی قابض افواج کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بھارتی افواج کو مکمل اور دائمی استثنیٰ حاصل ہے۔" کٹھ پتلی کشمیرسرکار انسانی حقوق کی ان  ورزیوں​ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
معروف سماجی کارکن خرم  پرویز کے مطابق مقبوضہ وادی میں کورونا کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مزید اضافہ ہواہے۔

برطانوی قانونی فرم کی تحقیقات میں بھی  سامنے آیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران بھارت کی خلاف ورزیاں اور مظالم  مزید بڑھ گئے ہیں۔ رپورٹ میں گذشتہ سال قابض بھارتی حکام کے ہاتھوں خطے کے سب سے ممتاز سماجی کارکن خرم  پرویز کی گرفتاری کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہیں۔
42 سالہ پرویز حقوق انسانی کی ایک تنظیم "جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی "کےلیےکام کرتے تھے۔

اس سوسائٹی نے قابض بھارتی فوج کی جانب سے کیے گئےظلم و تشدد اور طاقت کےبےجا استعمال کے بارے میں متعدد جامع رپورٹیں شائع کی ہیں۔
"اسٹوک وائٹ" کی رپورٹ میں صحافی سجاد گل کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جنہیں رواں ماہ کے اوائل میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا ،جب انہوں نے ایک حریت پسندکی شہادت پر احتجاج کرنے والے خاندان کے افراد اور ان کے رشتہ داروں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔انسانی حقوق کے وکلا نے ان لوگوں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عالمی دائرہ اختیار کے قانون کو استعمال کیا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں یا" دی ہیگ" میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مجرمانہ شکایات درج کرنے سے قاصر تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :