میرا حجاب ، اللہ کی مرضی!!!

منگل 15 فروری 2022

Ayesha Noor

عائشہ نور

اس دنیا میں ہر انسان کو زندگی جینے کےلیے  بنیادی حقوق مسلمہ طور پرحاصل ہیں ۔ جدید دنیاکے تمام مہذب معاشرے ان بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہیں۔ جمہوریت پسند مغربی معاشرہ تو اپنے آپ کو بنیاد انسانی حقوق کا محافظ سمجھتاہے ۔ سوال یہ پیداہوتا ہےکہ بنیادی انسانی حقوق اور تصور آزادی میں کیافرق ہے؟ مغربی دانشور انسانی حقوق کو آخر مادرپدر آزادی کے زمرے میں کیوں دیکھتےہیں؟ کیا اس کے بغیر انسانی حقوق کا تحفظ ممکن نہیں ؟ ہم جانتےہیں کہ آدابِ مغرب کی بنیاد مادیت اور مادرپدر آزادمعاشرتی اقدار پر رکھی گئ ہے ، جس نے وہاں خاندانی نظام کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیاہے ۔

اگر بات کی جائے بھارت جیسی نام نہاد سیکولر ریاست کی جہاں " ہندوتوا" کے پیروکاروں نے پورے ملک کو اقلیتوں کےلیے جہنم بنادیاہے۔

(جاری ہے)

وہ سیکولر ریاست کی بجائے "ہندوراشٹر " کے قیام کی راہ پر چل پڑے ہیں ، جہاں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے۔ کیا انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کی نظر میں یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟ کیا یہ تصور آزادی کی توہین نہیں؟  دنیا میں صرف ایک مذہب ، یکساں معاشرتی اقدار اور تہذیب وثقافت نہیں ہے ۔

لہذٰا شدت پسند طبقات کو چاہیے کہ وہ اپنے نظریات دوسروں پر لاگو کرنے کی کوششیں ترک کردیں اور بین المذاہب ہم آہنگی کا رحجان اپنائیں۔  اگربات کی جائے اسلام کی تو امت مسلمہ کی بنیاد  جداگانہ مذہبی ، معاشی ، معاشرتی ، تہذیبی و ثقافتی اقدار پر رکھی گئی ہے، جنہیں مٹانے کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوئی  ۔بھارت میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں ، اس کےبعد دیگر اقلیتیں عیسائی، سکھ ہیں ۔

9/11کےبعد یورپ کا دوسرا بڑا مذہب اسلام ہی قرار پایا ہے ۔ گویا اسلامی تعلیمات اور اقدار نے شرق سے غرب تک ہرجگہ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ اسلام نے روحانیت کی جو روح پھونکی ہے، اس کے سبب دنیا بھر میں مسلمان اپنی جداگانہ شناخت کی بقاء کےلیے پرعزم ہیں اور وہ کسی طور بھی غیر مسلم معاشروں میں جذب نہیں ہوناچاہتےبلکہ اپنا تشخص برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران اس کی کئ مثالیں سامنے آئی ہیں ۔ جوں ہی کئ مغربی ممالک میں " حجاب " پر پابندی کی لہر اٹھی ۔ یورپ میں رہنے والی  مسلم بہنوں اور بیٹیوں نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی ۔ وہ جانتی ہیں کہ اسلام نے انہیں جو عزت ، مقام مرتبہ اور حقوق عطا کیے ہیں ، وہ اپنے آپ میں جامعیت رکھتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ لی جائے کہ ایک باحیاء اور باوقار مسلم خاتون نہ تو مادرپدر مغربی آزادی کی خواہاں ہوتی ہے اور نہ ہی ہندوتوا کے غنڈوں کے سامنے ہتھیار ڈال سکتی ہے ۔

اگر کوئی خاتون باحجاب رہناچاہے تو اس پرجبر کا کسی قسم کے حقوق یا آزادی سے قطعاً کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایک باحجاب خاتون اگر " باپردہ" رہنے کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ خیال نہیں کرتی تو زبردستی کس چیز سے آزادی دلانے کی کوشش کی جارہی ہے ؟ اسلام میں  حقوق اور آزادی کا تصور ہی منفرد ہے ۔ جس کی بنیاد مادیت پر یا وطنیت پر نہیں بلکہ رضائے الٰہی پر رکھی گئی ہے ۔

تو پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت ایک باحجاب مسلم خاتون کو بےپردہ ہونےپر مجبور نہیں کرسکتی۔ نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرکے اپنے جائز مذہبی حقوق کےلیے انتہاپسند ہندو غنڈوں کے جتھے کے سامنے ڈٹ کر پورے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرنے والی مہاتما گاندھی کالج اوڈوپی کالج کی مسلم طالبہ  "مسکان خان بنت محمد حسین خان"صرف ریاست کرناٹک ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں حجاب پر پابندی کےخلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں اور خراج تحسین کی بھی مستحق ہیں۔

بھارت جیسا ملک جہاں کسی بھی مذہبی اقلیت کی جان و مال ، عزت وآبرو،اور عبادت گاہیں آر ایس ایس کے ہندو غنڈوں سے محفوظ نہیں ہیں ، وہاں تن تنہا ایک لڑکی کا مشتعل ہجوم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ " مسکان خان " اپنی جان اور عزت و آبرو دونوں کو خطرے میں ڈال کے اپنے جائز مذہبی حقوق کا ناصرف دفاع کیاہے بلکہ دنیا کو نام نہاد بھارتی سیکولر ازم کا گھناؤنا چہرہ بھی دکھادیا ہے ، جہاں اقلیتوں کیلئے نہ تو حقوق ہیں اور آزادی۔ کیا حجاب کو ترقی کی راہ رکاوٹ سمجھنے والے مغربی دانشور "ہندو توا"کے خطرات کو بھی سنجیدگی سے لیں گے ؟؟؟ کیا پاکستان میں نام نہاد "عورت مارچ"کی منتظمین اور موم بتی مافیا " مسکان " کیلئے آواز اُٹھائیں گی ؟؟؟ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :