غلام گردش!!!

بدھ 2 فروری 2022

Ayesha Noor

عائشہ نور

میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ، یا شاید کہنے کا حوصلہ نہیں ہے ۔ میرے پاس اس قوم کو دینے کےلیے کوئی تسلی و تشفی نہیں ہے ۔ ملک وقوم کے مستقبل اور معاشی مفادات کو عالمی سامراج کے مالیاتی اداروں کے حوالے کردیا جانا ایک سانحہ عظیم ہے ۔ کسی بھی محب وطن شہری کی نظر میں اس سے زیادہ دگرگوں حالات کیا ہوں گے کہ ملکی معیشت اغیار کی مٹھی میں رکھ دی گئ ۔

میں کس کے ہاتھ پر صحت جرم ثابت کروں؟ حکمرانوں کی بے حسی کا گلہ کروں ؟ یا حزبِ اختلاف کے فریب کا؟ اس بدقسمت قوم کا مقدر ہی بہت سخت لکھاگیاہے ، یہ نوزائیدہ ریاست اپنی قیام کے فوراً بعد ہی یتیم ہوگئ۔ پھر حوادثِ زمانہ نے وہی سلوک کیا جو کہ بے آسراء و یتیموں کے ساتھ ہوتاہے۔ اس قوم کو  اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی سہی کرنے والی دانشمند قیادت نصیب نہیں ہو سکی ۔

(جاری ہے)

خدا خدا کرکے برسوں  کے طویل انتظار اور  ملک دولخت ہوجانے کے بعد بالآخر 1973 میں اس قوم کو ایک متفقہ آئین نصیب ہوا۔ بلاشبہ یہ آئین پرانے دساتیر سے ہر لحاظ سے بہتر تھا مگر مفاد پرست اور اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں نے اس کی حقیقی روح کے مطابق نفاذ کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کیں ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کی وہ داستانیں رقم کیں کہ قومی خزانے کو  سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔

ایسے حالات عالمی ساہو کاروں کےلیے انتہائی موزوں ہوتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے " امداد " کے نام پر خوشنما جال پھینکا اور اس ملک کو سودی قرضوں کے چنگل میں پھنسا دیاگیا۔ جس ریاست کو ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا ، اس کے ہاتھوں میں کاسہ گدائی تھما دیاگیا ، دوستوں اور دشمنوں نے بلاتمیز ہمارے ساتھ بھکاریوں جیسا برتاؤ کیا۔ مگر بےحس اور اقتدار کے بھوکے ، بےضمیر نام نہاد راہبروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔

  ملک میں رائج تمام تر برائیوں کی جڑ یہ فرسودہ اور گلا سڑا نظام ان قومی چوروں کے ہاتھ مزید مضبوط کرتا رہا۔ مفاد پرستوں نے اس قوم کو تعلیم و شعور سے کوسوں دور رکھا۔ پکی نالی ، اور سڑک کے نام پر ووٹ کا سودا کرنے والی عوام کو خبر بھی نہ ہونے دی گئ کہ کس طرح قومی چور ملکی معیشت کی جڑوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے کرتے رہے۔ اس قوم کو کبھی جمہوریت اور کبھی تبدیلی کے نام پر بیوقوف بنایا گیا ۔

اب یہ ہی کھیل " اسلامی صدارتی نظام" کے نام پر نئے انداز میں کھیلا جارہا ہے ۔ صدارتی نظام کی خوبیاں دن رات گنوانے والو یہ تو صرف ایک طرزِ حکومت ہے ،جبکہ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کا تمام تر نظام ہی فرسودہ اور اصلاح طلب ہے ، اس بنیادی نقطے پر توجہ مرکوز نہ ہونے دینے کےلیے آئے روز نیا دکھاوا ہوتا رہتاہے۔اس ملک میں حقیقت پسندانہ اصلاحات ہونے ہی نہیں دیں جارہیں۔

اس ملک کی اشرافیہ یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ حالات میں کوئی حقیقی سدھار آئے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت میں استحکام لانے کےلیےکوئی عملی کام کرنے کی بجائے سطحی راستہ اپناکر آئی ایم ایف کے من مانی شرائط تسلیم کرکے قرضے لیے گئے ، جس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ عوام پر آئےروز مزید ٹیکسوں ، اور کمرتوڑ مہنگائی کا بوجھ بڑھتا چلاگیا ۔ عالمی اداروں سے لیے گئے سودی قرضوں کا بڑا حصہ خردبرد ہوا اور بدعنوان حکمرانوں کی جیب بھرتی چلی گئ ۔

دولت کی منصفانہ تقسیم نہیں​ تھی ، افراطِ زر بڑھنے اور ملکی کرنسی کی قیمت میں گراوٹ کا کھیل جاری رہا ، غریب ، غریب تر اور امیر ، امیرترین ہوتاچلاگیا۔ اشرافیہ کو ملکی زراعت ، صنعت و تجارت کی تباہی درحقیقت کوئی سروکار نہ تھا۔ جب ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر جا کھڑا ہوا ، تو بھی کسی کو فکر دامن گیر نہ ہوئی ، کیا حکومت یا حزبِ اختلاف سب نے ایک سا کردار ادا کرنے کی ٹھان لی ۔

حتیٰ کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوگیا اور وطن عزیز کی سالمیت پر  سمجھوتہ کرنے میں ذرہ بھر دیر نہ لگائی گئی ۔‏عمران خان اور ان کی جماعت سے قوم واقعی بیزار ہوچکی ہے،جنہوں نےاسٹیٹ بینک ترمیمی بل مسلط کرکے آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک کو وائسرائےجیسی بنیاد فراہم کر دی ہے ، تاریخ میں عمران خان کا دور " سیاہ باب" کےطورپر یاد رکھا جائے گا ،یہ حکومت اب واقعی ناقابلِ برداشت ہوچکی ہے ، ایسے غافل صاحبان اقتدار کو ضرور گھر چلے جاناچاہئے ۔

‏اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کو سینیٹ سے پاس کروانے میں حزبِ اختلاف کا " مشتبہ کردار" بھی حیران کن نہیں ہے ، یہ لوگ تو کئ دہائیوں سے غریبوں کا خون چوس رہے ہیں ، انہیں ملک و قوم سے بھلا کیا ہمدردی ہونی ہے ؟؟؟ PSL کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے اقبال کے شاہینوں کو شاید ابھی اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کا مستقبل کس طرح عالمی ٹھیکیداروں کے ہاں گروی رکھ دیا گیا ہے ۔ آزادی کی فضاؤں میں سانس لینا ہے تو بیدار ہوجاؤ ورنہ جلد ہی عالمی سامراج کی غلامی کا طوق تمہارے گلے میں ڈال دیا جائے گا ، اور اس کی ابتداء اب ہوچکی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :