"سری لنکا ہم شرمندہ ہیں"‎‎

جمعہ 10 دسمبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

میں اکثر یہ جملہ لکھتی رہی ہوں کہ "ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہرگز نہیں کہلا سکتا" ۔ یہاں بے حسی کا راج ہے ، انسان باقی رہ گئے مگر انسانیت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔
یہ وہ بے ہنگم ہجوم ہے جس کے جذبات سے مذہب کے نام پر بآسانی کھیلا جاسکتاہے۔ دنیا کا بہترین مذہب شعور سے عاری ہجوم کے ہاتھوں بدنام ہورہا ہے ۔  ہم کس منہ سے ایک ایسے دین کے ٹھیکیدار ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ، جو کہ احترام انسانیت کا درس دیتا ہے۔

یہ وہ دین ہے جو ہر فرد خواہ  مسلم ہو یا غیرمسلم اس کی جان کی حرمت کا درس دیتاہے، قتلِ ناحق کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیتاہے۔ ریاست مدینہ تو تمام شہریوں خواہ وہ مسلم تھے یا غیرمسلم ، ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ضامن تھی ۔

(جاری ہے)

حضرت محمد" صلی اللہ علیہ و آلہ واصحابہ وبارک وسلم " تو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ اسلام تو حالت جنگ میں بھی دشمن کے غیرمسلح مردوں ، عورتوں ، بوڑھوں ، بچوں حتیٰ کہ ان کے باغات ، کھیتیوں ، اور دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے ۔

اسلام میں تو قانون شریعت کی حاکمیت کا تصور واضح ہے اور ہر شخص قانون کا پابند ہے ، کوئی بھی شخص خواہ وہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔ خلیفۃ المسلمین کو بھی قانون ہاتھ میں لینے  کی اجازت نہیں ۔ عدالتوں کو گواہوں ، شہادتوں اور واضح ثبوتوں کی روشنی میں فیصلے صادر کرنے کا اختیار دیا گیاہے ، جسے حاکم وقت بھی نہیں چھین سکتا۔

کسی کو بھی ماورائے عدالت فیصلے کرنے کا حق نہیں ہے۔   تو پھر ایک بپھرے ہوئے بے قابو ہجوم کو کس نے حق دیا  کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لےکر بلاتحقیق کسی انسان (خواہ وہ مسلم ہو یا غیرمسلم) کی زندگی چھین لینے کا ازخود فیصلہ صادر کرے اور اس ماورائے عدالت فیصلے پر عملدرآمد​ کرکے ایک مظلوم اور بےبس انسان کی لاش کی سر راہ بے حرمتی کرے۔ کیا مذہب کے نام پر ضمیر کچل دیئے گئے ، شعور مار دیئے گئے ہیں ، انسانیت کا گلا گھونٹ دیاگیا، اور قرآن وسنت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

یہ جنونی ، وحشی درندے تو ہوسکتے ہیں مگر عاشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہرگز نہیں ہوسکتے۔ذرا سوچیے کہ کتنے ہی مسلمان روزی کمانے کےلیے غیرمسلم ریاستوں میں قیام پذیر ہیں ؟ فرض کیا کہ وہاں ایسا واقعہ پیش آجائے تو کس منہ سے مذمت کروگے؟ اس قدر افسوسناک واقعے میں بھی کچھ لوگ امید کی کرن بن کر سامنے آئے ہیں ۔ پاکستانی شہری " ملک عدنان" کی جانب سے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کو مشتعل ہجوم سے بچانے کی کاوش قابلِ تحسین ہے، انہیں اعزاز دینا اچھا حکومتی فیصلہ ہے ۔


سیالکوٹ واقعہ کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ فیکٹری میں کام کرنے والوں کو سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کی جانب سے صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے کی عادت اور نظم وضبط کی پابندی بالکل بھی پسند نہ تھی ۔ اسی لیے مذہبی لیبل ہٹانے کا بہانہ بنا کر  ایک پردیسی کی جان لے لی گئ ، حالانکہ پریانتھا کمارا کو اردو اور عربی نہیں جانتا تھا اور اس نے جوکچھ کیا ، وہ جان بوجھ کر نہیں بلکہ انجانے میں کیا ،  اس کی جان لینے کی بجائے اسے بتایا اور سمجھایا جاسکتا تھا اور وہ سمجھ بھی جاتا ۔

اس سارے واقعے کا ایک دوسرے رخ سے جائزہ لیاجائے تو بحثیت قوم ہماری کئ خامیاں عیاں ہوجاتی ہیں۔  ہمارے ہاں سہل پسندی ، آرام طلبی اور لاپرواہی ،غیر ذمہ داری ، کام کو بوجھ سمجھنا ایک عام معاشرتی رویہ بن چکاہے۔ لوگ کم محنت کرکے زیادہ کمانا چاہتےہیں ۔ نظم و ضبط توڑنا ، صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا، وقت کی پابندی نہ کرنا، اشیائے خوردونوش میں   ملاوٹ کرنا تو عام سی بات ہے۔ بحثیت قوم ہم اخلاقی طور پر ایک زوال پذیر معاشرہ ہیں  ۔ کیا یہ سب کچھ ایک مسلمان کو زیب دیتاہے؟ جب ایک  غیرمسلم نے  بگڑے نواب زادوں کو  سدھارنا چاہا تو وہ اس کے خون کے پیاسے ہوگئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :