ثقافتی یلغار

پیر 20 دسمبر 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

وقت کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوچکاہے کہ عالم عرب میں مغربی اور ہندو ثقافت متعارف کروانے کےلیے کافی منظم انداز میں کام ہورہا ہے۔ رواں برس یہ لہر حجاز مقدس کا رخ بھی کر چکی ہے ۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ہالی ووڈ گلوکار جسٹن بیبر  اور بالی ووڈ اداکاروں سلمان خان ، شلپاشیٹھی اور جیکولین فرنینڈز کی مخلوط محافل منعقد کی اجازت دے دی ، جہاں ہزاروں لوگوں کا مجمع اکٹھا ہوا  ۔

یہ پہلا موقع تھا کہ جب وہ کام ہوگیا،جو ناممکن سمجھا جاتاتھا۔ آل سعود کے جدت پسندانہ اقدامات پر علمائے کرام کی خاموشی یقیناً ایک سوالیہ نشان ہے جبکہ کووڈ 19 کا خطرہ بتا کر حج و عمرے کے اجتماعات کو محدود رکھاگیا۔ پھر تبلیغی جماعت پر مبینہ پابندی بھی حیرت انگیز تھی ۔

(جاری ہے)

  دنیامتحدہ عرب امارات میں ہندو مندر کا افتتاح ہوتا بھی دیکھ چکی ہے ۔

اسلام کی اپنی تہذیبی اور ثقافتی اقدار اورطرزِ زندگی ہے، جسے محض تفریح مواد (انٹرٹینمنٹ) کے نام پر پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے  ۔ آل سعود کے ان اقدامات کے باعث مستقبل میں عالم عرب کو ایک نئی ثقافتی یلغار کا سامنا کرناپڑےگا،جس کے منفی اثرات سے نمٹنا  ان کے لیےخاصا دشوار ہوجائےگا۔  پاکستان ہی کی مثال لے لیجئے, یہاں پر بالی ووڈ کے سبز قدم پڑتے ہی لالی ووڈ میں بھی فحاشی سرایت کرتی چلی گئ اور رفتہ رفتہ لالی ووڈ" کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالی ووڈ نے اس کا مقام و مرتبہ چھین لیا​ ۔

اور یہ تصور پنپ گیا کہ ناچ گانے کے بغیر کوئی تفریح مواد نہیں ۔ پھر اچانک کسی طرح ترک ڈرامہ " ارطغرل غازی" منظرنامےپرنمودار ہوا تو ہمیں سمجھ آیا کہ ناچ گانے ، ساس بہو کے جھگڑوں ، شادیاں کروانے اور طلاقیں دلوانے کے علاوہ بھی تفریح مواد کا وجود ممکن ہے ۔ چنانچہ  دیریلیش ارطغرل ، کورولش عثمان ، عظیم سلجوقوں کا عروج ، اور بارباروسا : بحیرہ روم کی تلوار جیسے مقبول ترک ٹی وی سیریلز پاکستانی عوام کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہے اور  بالی ووڈ کے ستر سالہ پرانے گھنگھرو جیسے تیسے ٹوٹ گئے۔

  پاکستانی عوام نے "دیریلیش ارطغرل" کے مقبول اداکاروں اینگن التان ، نورتین سونمیز ، چنگیز جوشکن ، اور جاوید چیتن کو پاکستان میں خوش آمدید کہا ، اسراء بیلجیک پاکستانی اشتہارات میں بھی نظر آنے لگیں ۔ دوسری طرف لبرل طبقے ( مغرب پسندوں) نے " دیریلیش ارطغرل " کے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے پر تنقید کے نشتر چلائے اور ترک ڈراموں کا  پاکستانی ثقافت سے تعلق نہ ہونے کے دعوے کیے گئے۔

ایسے لوگ بتائیں کہ انہوں نے ہندو اور مغربی ثقافتی​ یلغار سے ملکی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کےلیے کتنا کام کیا؟ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آئے روز بالی ووڈ اداکاروں کے متعلق خبریں شائع ہوتی ہیں ، کیا کسی نے کبھی اعتراض کیا؟ جہاں تک ترک ثقافت  کا تعلق ہے تو کم از کم یہ پورے یقین سے کہا جاسکتاہے کہ ترک ثقافت  اسلام سے گہری وابستگی رکھتی ہے ، اور ترک تاریخ اسلام کے دفاع کےلیے جانی اور مالی قربانیوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔

بنو امیہ اور بنو عباسیہ کی خلافت کے خاتمے کے بعد سیاسی طور پر امت مسلمہ کی قیادت عربوں سے ترکوں کو منتقل ہوگئی تھی۔  آل سلجوق ، مملوک ترک ، اور خلافتِ عثمانیہ کی تلواروں نے بازنطین ،  منگول اور  صلیبیوں سے عالم اسلام کا دفاع کیا ۔ بہتر ہے کہ آپ ترک تاریخ پڑھ لیں ، آپ کو علم ہوجائے گا کہ اناطولیہ کو اسلامی سرزمین بنانے والا سلطان محمد الپ ارسلان ، صلیبی جنگوں میں اقوامِ مغرب کو عبرت ناک شکست دینے والا سلطان نورالدین زنگی ، چنگیز خان کو للکارنے والا خوارزم کا شیر سلطان جلال الدین خوارزمی،   وحشی منگولوں سے حجاز مقدس کو بچانے کےلیے معرکہ عین جالوت میں ہلاکو خان کی فوج کو شکست دینے والا مصر کا مملوک  سلطان رکن الدین بیبرس ، اور حدیث مبارکہ کے مطابق قسطنطنیہ کو فتح کرنے والا سلطان محمد فاتح یہ سب ہی  ترک تھے۔

فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی ایک کرد تھے۔  اس کے بعد آپ خود فیصلہ کرلیجئے کہ یہ عظیم شخصیات کس قدر قابل احترام اور لائقِ تحسین ہیں ۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم فاتح سلطان شہاب الدین غوری ، سلطنت دہلی کے سادات اور لودھی خاندان کو چھوڑ باقی یعنی خاندان "غلاماں ، خلجی ، تغلق ترک تھے۔ یہ سلطان غیاث الدین بلبن اور  سلطان علاؤ الدین خلجی سلاطین دہلی میں سے ہی تھے ، جنہوں نے سرزمین ہندوستان پر حملہ آور ہونے والے  وحشی منگولوں کو پے درپے عبرت ناک شکستوں​ سے دوچار کیا ، اور پھر سلطنت دہلی کی جگہ لینےوالی مغلیہ سلطنت بھی تیموری ترکوں نے قائم کی تھی ۔

پہلی جنگِ عظیم کے دوران  خلافت عثمانیہ کو بچانے کےلیے ہندوستانی​ مسلمانوں نے ہی " تحریکِ خلافت " چلائی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عثمانی ترکوں کے زوال کا مطلب مسلمانوں کی مرکزیت یعنی  منصبِ​ خلافت کے زوال کا سبب بنے گا۔ چنانچہ اب نقاد خود یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ کون سے تاریخی اور ثقافتی ورثے کے علمبردار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :