انقلاب کب اور کیوں؟

پیر 15 جون 2020

Azhar Hassan

اظہر حسن

تحریر کی جانب پیش رفت سے پہلے میں یہاں انقلاب کا مطلب واضح کرتا چلوں کہ انقلاب سے کیا مراد ہے؟ انقلاب کے لغوی معنی ہیں تبدیلی جبکہ اصطلاح میں اس سے مراد ایک ایسی ریاست یا سماج ہے جس کو ہر طرح کی برائی نے جکڑ رکھا ہو۔ جہاں اکثریت کی حق تلفی ہو جبکہ اقلیت نے اپنا غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہو۔ ایسے سماج میں ظالمانہ نظام کو بدل کر نظامِ عدل نافذ کرنے کا عمل انقلاب کہلاتا ہے۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انقلاب کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور انقلاب کیسے لایا جاتا ہے؟ ایک ایسی ریاست جہاں ایک اقلیتی طبقے نے اپنی طاقت اور سرمائے کے بل بوتے پنجے گاڑھ رکھے ہوں۔ جو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے اکثریت کے حقوق غصب کر رہا ہو۔ اس اقلیتی اور مفاد پرست گروہ نے ایک ایسا نظام نافذ کر رکھا ہو جس سے ہر طرح کی برائی جنم لے رہی ہو۔

(جاری ہے)

جہاں زندگی کو تحفظ حاصل نہ ہو۔ جہاں بے حیائی کا دور دورہ ہو۔ جہاں بوڑھوں، بچوں اور عورتوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہوں۔ جہاں شعور نام کو نہ ہو۔ جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے پیچھے لگا کر ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہو۔ جہاں غلامی اپنے عروج پر ہو۔ تو تب اس معاشرے میں موجود باشعور طبقے کا فرض عین بن جاتا ہے کہ وہ متحد ہو کر مظلوم لوگوں کو حقیقت کا ادراک کروائیں۔

جن لوگوں کی حق تلفی ہو رہی ہو ان کو یکجا کر کے اس بوسیدہ نظام اور ظالم اقلیتی گروہ کے مد مقابل لا کھڑا کریں۔ اور اس ظالم نظام کو نیست و نابود کر کے ایک ایسا معاشرہ جنم دیں جو عدل و انصاف کے ضوابط پر مبنی ہو۔
جس طرح حضرت علامہ اقبال علیه رحمه فرماتے ہیں
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہَن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
اگر تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں انقلاب کی کئ مثالیں ملتی ہیں۔

عالمِ اسلام کا انقلاب انسانیت کی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب ہے۔ جس نے بغیر خون بہاۓ اپنا مقصد حاصل کیا۔ پیغمبرِ انقلاب ہادئ عالم حضرت محمد مصطفیٰﷺ  کی ولادتِ باسعادت سے قبل دنیا کے سماجی و معاشی نظاموں میں ظلم و استحصال کے باعث بنی نوع انسان کا دامن اخلاقِ حسنہ کے اعتبار سے تہی تھا۔ لیکن حضرت محمدﷺ  نے اپنے جمالِ خُلق اور کمالِ خَلق سے ایسے اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کیے جن کی نظیر دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتی۔

آپﷺ نے اپنی جماعت کے ساتھ مل کر چند دہائیوں میں قیصر و کسریٰ کے ظالمانہ نظام کو نیست و نابود کر ڈالا۔ اور پوری دنیا پر اسلام کا پرچم سر بلند کیا۔ لہٰذا ہر دور کے لوگوں کے لیے آپﷺ کی اجتماعی و انقلابی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
اس کے علاوہ بہت سی ایسی ریاستیں ہیں جیسے چین، ایران، روس اور کیوبہ جن پر طبقاتی اور ظلم و بربریت کا نظام قابض تھا لیکن وہاں کے باشعور گروہ نے ایک ہو کر اس نظام کا خاتمہ کر کے نظامِ عدل قائم کیا۔


آج ریاستِ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ایسے ہی کسی انقلاب کی منتظر ہے۔اسکی حالت بھی ایک ظالمانہ نظام سے کچھ مختلف نہیں۔ اس پر بھی ایک اقلیتی گروہ نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ یہاں بھی لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یکسر میسّر نہیں۔ یہاں بھی اکثریتی لوگوں کو جہالت و پستی کے عمیق گڑھوں میں دھکیل کر انہیں زمانۂ جاہلیت کی طرح مختلف برائیوں میں جکڑا جا رہا ہے اور اس کی آڑ میں مفاد پرست طبقہ اپنے عزائم میں کامیاب ہو رہا ہے۔

لہٰذا اس وقت ریاست میں موجود باشعور طبقے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نظریۂ اسلام پر مبنی ایک ایسی جماعت تشکیل دے جو اِس ظالم گروہ اور نظامِ ظلم کو شکست دے کر ایک ایسا نظامِ عدل قائم کرے جو اسلامی اصولوں کے عین مطابق  ہو جو انسانیت پر کہیں بھی ہونے والی بداخلاقی و ناانصافی مٹا کر ایک خوشگوار معاشرہ جنم دے سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :