وفاقی بجٹ 2020 -2021

ہفتہ 13 جون 2020

Azhar Hassan

اظہر حسن

کل وفاقی وزیرِصنعت و پیداوار حماد اظہر نے پاکستان تحریکِ انصاف حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ 7295 ارب روپے مالیت اور 3437 ارب روپے خسارے کے ساتھ پیش کیا۔ جوکہ رواں برس سے 11فیصد کم ہے۔
جہاں اس بجٹ کی تجاویز میں معاشی ترقی کا ہدف 2.1 فیصد رکھا گیا وہیں مہنگائی کی شرح کو 9.7  فیصد سے6.5 فیصد تک لایا جاے گا۔اس بجٹ میں زراعت میں ترقی کی شرح 2.8,انڈسٹریز میں 0.1 اور سروسز سیکٹر میں 2.6فیصد رکھی گی۔


ٹیکس کا ٹارگٹ رواں برس کی محصولات سے 27فیصد زیادہ 4963 ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ رواں برس سے 18فیصد کم 1342 ارب روپے رکھا گیا۔
احساس پروگرام کیلئے رواں برس سے 21ارب روپے اضافے کے ساتھ 208 ارب روپے جبکہ کرونا کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے۔ پینشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھے گئے جو رواں برس سے 3۔

(جاری ہے)

1 فیصد زیادہ ہیں۔ زرعی شعبے میں ریلیف اور ٹڈی دل کے روک تھام کیلئے 10ارب روپے رکھے گئے۔


دفاعی بجٹ رواں برس کے 11کھرب 12ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 8۔11  فیصد اضافے کے ساتھ 12 کھرب 89 ارب روپے کردیا گیا۔ تعلیم کیلئے 4 سے 5 ارب روپے اور ایچ-ای-سی کیلئے 64 ارب روپے مختص کیے گئے۔
2020 کا بجٹ ان  اعدادوشمار پر مبنی تھا۔
اب اگر اس بجٹ کا موازنہ کیا جائے تو جہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا وہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئ اضافہ نہیں کیا گیا جوکہ گزشتہ 47 برس میں پہلی بار اس حکومت کے زیرسایہ ہوا ہے۔

اس مہنگای کے دور میں اکثر ملازمین کی نظر بجٹ پر ہی مرکوز ہوتی ہے اور وہ حکومت سے کسی ریلیف کے منتظر ہوتے ہیں لیکن اس بار ضرور مایوس ہوۓ ہوں گے۔
اعلی پوسٹس پر براجمان ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھای جاتیں لیکن متوسط طبقے کو ضرور ریلیف دینا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس مہنگای کے دور میں موجودہ تنخواہوں پر ان کا گزر بسر کرنا مشکل ہے. یہاں کمزور اکانومی کا جواز نہیں ٹھہرتا کیونکہ دفاع کو ایسی اکانومی ہوتے ہوے بھی ایک پہاڑ کی مانند بجٹ دیا گیا ہے۔


اس کے ساتھ ساتھ اگر ٹیکس کے محصولات پر بات کی جائے تو گزشتہ برس اسکا ہدف 5500 ارب روپے رکھا گیا جوکہ قبل از کرونا اس کا علم ہو گیا تھا کہ اس ہدف کا حصول ناممکن ہے۔ اور یہ ایک ایمبیشیس ہدف ثابت ہوا۔ اور اس برس تو گزشتہ محصولات سے بھی 27 فیصد زیادہ رکھا گیا ہے اور اس کے حصول میں حکومت کتنا کامیاب ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔


اس کے علاوہ رواں برس 18 فیصد کم ترقیاتی بجٹ اور 6۔5 فیصد مہنگائی کے ساتھ ہماری اکانومی کس ڈگر ٹھہرتی  وہ بھی اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے۔
اگر بجٹ کے تناظر میں دفاع اور تعلیم و صحت کے شعبوں کا موازنہ کیا جائے تو تعلیم کا بجٹ دفاع کے مقابل آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اس حقیقت سے اختلاف نہیں کہ ہمیں مضبوط تر دفاع کی ضرورت ہے کیونکہ مملکت پاکستان متعدد دشمنوں میں گھرا ہے۔

وہیں پر وقت کے تقاضے کے مطابق تعلیم و صحت کے شعبوں کو اٹھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک اندورنی طور پر مضبوط ہو۔اور جو ملک اندورنی طور پر مضبوط ہوتا ہے وہی ملک بیرونی خطرات سے بہتر انداز میں نبردآزما ہوسکتا ہے۔
اگر ہم تعلیم پر توجہ نہیں دیں گے تو ہمارے مستقبل کا نوجوان بیشعور و متعدد جرائم میں ملوث ہوکر اس مملکت کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ہماری حکومت کو بر وقت اپنی ترجیحات کا محاسبہ کرکے درست سمت کا تعین کرنا ہوگا تبھی ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جا کھڑے ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :