آخر ایسا کیوں؟

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Azhar Hassan

اظہر حسن

آج راولپنڈی سے اپنے آبائی شہر جھنگ جاتے ہوئے  گاڑی میں بیٹھا انہماک کیساتھ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی کہ اچانک میری نظر راستے میں آنے والے ایک گندے نالے کے کنارے آباد چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں پر پڑی۔ ان جھونپڑیوں کے آس پاس اس سردی کے موسم میں چھوٹے چھوٹے بچے نیم برہنہ حالت میں اطراف سے بے خبر  کھیل کود میں مصروف تھے۔

مگر حالات کی مشکلات اور زمانے کی تلخی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ چہرے پر بچپن کی معصومیت کی جگہ سنجیدگی اور ان کہے سوالات نے لے رکھی تھی۔ ایسے سوالات جن کے جوابات کے متلاشی شاید وہ بچے بھی ہوں اور چیخ چیخ کر اس سماج سے مخاطب ہوں کہ آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں؟
ان جھونپڑیوں اور بچوں کو دیکھ کر میری آنکھوں میں ان جھونپڑیوں کا منظر دکھائی دینے لگا جو میرے عزیز وطن میں جگہ جگہ موجود ہیں اور اس طرح کے چھوٹے چھوٹے بچے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔

(جاری ہے)


وہ جھونپڑیاں اور بچے آنکھوں سے اوجھل ہوئے ہی تھے کہ گاڑی ایک اسٹاپ پر رکی جہاں ایک نابینہ شخص گاڑی میں سوار ہوا۔ سوار ہوتے ہی اس نے کچھ اس طرح کلمات کہہ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا
”اکھ بہت بڑی نعمت ہے
اکھ نہیں تے ککھ نہیں
اکھ ہے  تو سب کچھ ہے
اکھ گئی تے سب گیا“
اس کے بعد اس نے اپنی آنکھیں ضائع ہونے کی کہانی سنائی   اور اگلے ہی لمحے ہاتھ پھیلا کر لوگوں سے مانگنے میں مصروف ہو گیا اور میں پھر سے کھڑکی کی جانب متوجہ ہوا  تو میری نظر سے ایک بلندوبالا عمارت گزری اور  میرے ذہن میں بھی ایک سوال کھٹکا کہ آخر ایسا کیوں؟
آخر یہ سماج دو زاویوں کی عکاسی کیوں کر رہا ہے؟ جہاں انسان ہزاروں سالوں کی ارتقائی
 منازل طے کر کے غاروں اور جنگلات سے نکل کر انہی پتھروں کے گھر بنا کر ایک تہزیب یافتہ زندگی بسر کر رہا ہے وہیں اسی سماج میں موجود کچھ لوگ اس سردی کے موسم میں بھی گندے نالوں اور جوہڑوں کے کنارے جھونپڑیاں بنا کر جانور نما زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔


کیا ان جھونپڑیوں کے اطراف میں کھیلتے کودتے نیم برہنہ بچوں کا حق نہیں کہ وہ اس سردی کے موسم میں جسم پر مکمل لباس زیب تن کر کے خود کو ٹھنڈ سے بچا سکیں اور گندگی کے ڈھیر میں کھیلنے کی بجائے تعلیم حاصل کر کے خود کو باشعور انسان بنا سکیں۔
ایک طرف چند لوگ بلندوبالا عمارتوں کے مکین ہیں اور آسائش سے آراستہ زندگی بسر کر رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے اپنے ہی بھائیوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر اپنی عزت نفس مجروح کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

آخر یہ طبقاتی تقسیم کیوں؟  
اور میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہو گیا۔ کبھی میں قسمت کو دوش دے کر اسے رب کی منشا سمجھتا مگر ساتھ ہی مجھے رب کا عدل و انصاف یاد آجاتا۔
وہ رب جو یہ کہتا ہے کہ
اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى
عدل کرو یہ تقوی کے زیادہ نزدیک ہے۔
خود غیر منصفیانہ رویہ کیسے اپنا سکتا ہے۔ ایک کو نواز کر دوسرے کو محروم کیسے رکھ سکتا ہے۔

نہیں یہ آخر کیوں؟ کا جواب نہیں ہو سکتا بلکہ ملائیت  کا لگایا گیا بے بنیاد ٹھپہ ہے تاکہ محروم شخص اسے اپنی قسمت سمجھ کر محرومی کی اصل وجہ جان کر حقیقت کا ادراک نہ کر سکے۔
آخر سماج کی اس طبقاتی تقسیم کا ذمہ دار کون ہے؟ جہاں مساوات نام کی چیز کا وجود ہی نہیں ہے؟ ایک طرف چند لوگوں کے پاس دنیا کی ہر آسائش میسر ہے تو دوسری طرف کچھ لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔


انھی سوچوں میں گم میرے ذہن میں لفظ ریاست اور اس میں قائم نظام آیا۔ لوگوں تک تمام تر سیاسی معاشی و
 سماجی حقوق باہم پہنچانا ایک ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ ایک نظام کے ذریعے یہ کام سر انجام دیتی ہے۔
نظام وہ اصولوں کا مجموعہ ہے جس پر ایک ریاست کو قائم کر کے رب کے پیدا کردہ وسائل کو منصفیانہ طور پر لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

اگر وہ اصول انسانیت دوست ہوں تو ایک طبقاتیت سے پاک مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور وسائل  کی مساوی تقسیم ہوتی ہے۔ اور اگر وہ اصول انسانیت سوز اور ظلم و استحصال پر مبنی ہوں تو سماج کی حالت جنگل کے قانون سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔
انسانیت سوز اصول ایک ریاست میں اس وقت رائج ہوتے ہیں جب ظالم و استحصالی گروہ اس پر قابض ہو جائے۔
استحصالی گروہ ریاست پر قابض ہو کر ایسے اصول بناتا ہے جس سے وسائل کا رخ ان کی جانب مڑ جاتا ہے اور وہ لوگوں میں پھوٹ و نفرت ڈالنے کیلئے ایک کو نواز کر دوسرے کو محروم رکھتا ہے اور سماج طبقاتی تقسیم کا شکار ہو کر گندگی کا ڈھیر بنتا چلا جاتا ہے۔


اور اس کے ساتھ ساتھ وہ استحصالی گروہ ملائیت  و پیشوائیت  کا سہارا لیکر محروم طبقے کو یہ باورا کروا دیتا ہے کہ یہ انکے نصیب میں لکھا ہے تاکہ وہ اصل حقائق تک پہنچ کر ایک ہو کر ان کا صفایا نہ کر دیں۔
یہی ریاست پر قابض استحصالی گروہ اور اس پر قابض نظام ہی اس آخر کیوں کا جواب ہے۔ جو بھی بھوک و افلاس ہے وہ وسائل کی کمی کا شاخصانہ نہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفیانہ تقسیم ہے اور وسائل کی غیر منصفیانہ تقسیم ہی عدم مساوات کو جنم دیتی ہے۔


بلاشبہ ریاست پاکستان بھی انھی مسائل سے دوچار ہے جس پر چند لوگوں نے قابض ہو کر ایک استحصالی   نظام کو مسلط کر کے وسائل کا بہاؤ اپنی جانب موڑ  رکھا ہے  اور دولت چند ہاتھوں میں مرتکذ ہو کر رہ گی ہے۔
جس کے باعث ریاست پاکستان جرائم کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے جہاں غربت و افلاس سے تنگ آکر کبھی کوئی غریب اپنے معصوم بچوں کو نہر میں پھینکنے پر مجبور ہے تو کبھی دس سالہ بچی پھندے سے لٹکی نظر آتی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ اس ظالم و استصالی نظام کی بیخ کنی کر کے  معاشی عدل کا نظام نافذ کیا جائے تاکہ وسائل بغیر کسی تقسیم کے لوگوں تک پہنچیں اور انسانیت کی تہزیب نو ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :