حضرت محمدﷺ بطور انقلابی

اتوار 1 نومبر 2020

Azhar Hassan

اظہر حسن

حضرت موسی علیہ السلام  اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد عالم بتدریج تنزلی کیجانب گامزن ہوتا چلا گیا۔ اجتماعیت کے مقابلے میں انفرادیت اور انسانیت کے مقابلے میں ہوس ٗ حرص اور اس طرح کے دیگر رزائلِ اخلاق نے انسانی فطرت کو مسخ کر دیا تھا۔ اسی سماج میں سے ایک گروہ گردنوں کا مالک اور دوسرا غلام بنتا چلا گیا اور تفرقات میں بٹ کر ایک دوسرے کی جانوں کے ہی دشمن بنتے چلے گئے۔

عالم کا یہ حال ہو گیا کہ خود ساختہ مذہبی و سماجی بندشیں اور مذہبی و اخلاقی تخریب کاری عروج پر تھی۔ جہالت کا یہ عالم تھا کہ لوگ عضو تناسل کی پرستش کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ الغرض پورا عالم ہی تنزلی کے عمیق گڑھے میں دھنسا ہوا تھا۔
ایسے عالم میں خطہ عرب کے شہر مکہ اور قریش کے معزز ترین قبیلہ بنو ہاشم میں 12 ربیع الاول (  22 اپریل 571 عیسوی ) کو آپﷺ نے آنکھ کھولی۔

(جاری ہے)

آپﷺ کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے آپﷺ کے والد گرامی حضرت عبداللہ وفات پا چکے تھے۔ آپﷺ کی تربیت دادا حضرت عبدالمطلب نے کی اور ان کے بعد آپﷺ کے چچا ابو طالب نے آپﷺ کی پرورش کا بیڑا اٹھایا۔ آپﷺ نے ابتدائی زندگی کے چند سال ایک بدوی قبیلے کے ساتھ گزارے جہاں عربی زبان اور عرب کے طور طریقوں سے واقفیت حاصل کی۔ آپﷺ کے خاندان کے افراد مکہ کے سرداروں میں سے تھے اس لیے آپﷺ کو وہاں قائم کردہ سیاسی و معاشی نظام کو قریب سے جاننے کا موقع ملا اور مذہبی رسومات کو بھی غور سے دیکھا۔


آپﷺ نے دیکھا کہ اس وقت عرب قوم پر قابض نظام کی وجہ سے ایک طبقہ تو عیش و عشرت میں مصروف ہے اور ایک جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہر طرف فتنہ و فساد کا تنور دہک رہا تھا۔ ہر قبیلے نے آبادی کے اعتبار سے اپنے اپنے بت بنا کر خود کو طبقات میں بانٹ رکھا تھا اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش میں مبتلا تھے۔
آپﷺ کی آمد سے پہلے عرب کو ”جلی ہوی زمین“ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

صحراٶں میں انسان نما جانور رہتے تھے۔ بات کا بتنگڑ بنا کر سالوں سال ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ کہیں گھوڑا آگے بڑھانے اور کہیں پانی پر نسل در نسل دشمنیاں چلتی رہتی تھیں۔ عرب یہودیوں کا معیشت پر قبضہ تھا اور وہ دیگر عرب قبائل کا استحصال کرتے تھے۔
سرمایہ دارانہ قوتیں منظم طریقے سے حکمرانی قائم کرکے لوٹنے میں مصروف تھیں۔ اور پسے ہوۓ طبقے کے مقدر میں محض ذلت اور غلامی تھی۔

اگر وہ سرمایہ دارانہ قوتوں سے کاروبار کیلئے قرض لیتا تو منافع کی کثیر رقم سود کی مد میں دینا پڑتی تھی اور یوں وہ نسل در نسل اس سود کو چکانے کیلئے محنت کرتے رہتے مگر سود کبھی ختم نہ ہو پاتا۔ اس طرح اس سودی نظام نے عرب کے انسانی سماج کو کھوکھلا اور بے جان کر دیا۔
اس دور میں عورت کے مقدس وجود کو مردوں کیلئے ننگ و عار سمجھا جاتا تھا اور اس کے جسم کو آلہ تلذذ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔

آزادی راۓ کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ غریب سرمایہ دارانہ قوتوں کے ڈر سے اپنی بیٹیاں زندہ درگور کر دیتے تھے تو امیر اپنی بیٹیوں کو اس غرض سے مار دیتے تھے کہ کہیں انہیں جائیداد  میں حصہ نہ دینا پڑ جاۓ۔ میراث میں بھی تمام تر حقوق کا وارث لڑکا ہی ہوتا تھا۔ الغرض پورا سماج ہی تنزلی میں تھا۔
آپﷺ اس سماج کی بنائی گئی خود ساختہ رسومات اور اصولوں پر غوروفکر کی غرض سے اکثر غارِ حرا جایا کرتے تھے۔

جہاں چالیس برس کی عمر میں آپﷺ کو نبوت کے مقام پر سرفراز کیا گیا۔ جہاں سے آپﷺ نے عملی جدوجہد کا آغاز کیا اور ایک خدا کے دین کی اشاعت شروع کی۔
ایک خدا کے تصور سے مراد کعبے کے اندر موجود 360 بت جو دراصل معاشرے کی 360 زاویوں پر تقسیم تھی کا خاتمہ تھا۔ یہ بت نسل پرستی، برادری ازم، جاگیرداریت، استحصالی سودی نظام، ظلم و جبر اور طبقاتی تقسم کی علامتیں تھیں۔

لہذا خداۓ یکتا کے معنی یہ ہوۓ کہ خدا ایک ہے اور تمام مخلوق اپنے اصل کے اعتبار سے اللہ کاکنبہ تھی۔
آپﷺ نے ایک نصب العین (معاشرے میں قائم کردہ ظالمانہ و طبقاتی نظام کا خاتمہ) کا تعین کر کے اس پر جماعت سازی کا کام شروع کیا۔ اسی قوم سے باشعور نوجوان کو کھنگال کے ایک نقطے پر منجمد کیا اور طبقات میں بٹے سماج کو افلاس و تنگدستی سے نکال کر مساوات پر لے آۓ اور معاشرہ جو دین کی اصل روح سے بھٹک چکا تھا اسکو بیدار کیا۔

اور یہی خدا کی یکتائی کا تصور تھا۔
اور 23 سال  کے عرصے میں انقلاب برپا کرکے تمام طاغوتی  قوتوں کا خاتمہ کیا اور ایک معاشی عدل کا نظام قائم کیا جہاں ہر انسان کو اس کا حق دیا جاتا تھا۔ اور سیاسیات معاشیات و سماجیات کے ایسے اصول دئے جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گے اور ان سے ہر دور میں رہنمائی لی جا سکے گی۔ آپﷺ کی تربیت یافتہ جماعت نے نہ صرف مکہ مکرمہ و قیصر و کسری کے ظالمانہ نظاموں کا خاتمہ کیا بلکہ اس انقلاب کے ثمرات ایک ہزار سال تک قائم رہے پھر چاہے وہ سلطنت عثمانیہ کا دور ہو یا مغلیہ سلطنت۔

اور حضورﷺ کے بناۓ گے اصولوں کے تحت پورا معاشرہ اجتماعی طور پر ارتقا کی جانب بڑھتا گیا۔
مگر افسوس کہ آہستہ آہستہ ہم نے پھر سے اجتماعیت کو چھوڑ کر انفرادیت کو ترجیح دی اور آپﷺ کی بعثت کی اصلی روح کو بھول کر ان کی سیرت کو چند عبادات تک محدود کر دیا۔
خود کو بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی بجاۓ بنیاد پرستی پر قائم رہے اور رسوائی میں دھنس کر ترقی کے میدان میں دوسری قوموں سے کٹتے چلے گئے۔

آج ہم اپنی عبادات کی اصل روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر ہم خود پر نظر دوڑائیں تو ہماری حالت عرب کے اس دور سے یکسر مختلف نہیں جس دور میں آپﷺ نے انقلاب برپا کیا تھا۔ آج اجتماعیت کو بھول کر ہر شخص انفرادی طور پر ترقی کرنا چاہتا ہے اور اس سے معاشرہ ارتقا کی جانب بڑھنے کی بجائے جمود کا شکار ہو رہا ہے۔
ہم نے آپﷺ کی زندگی کے باقی پہلو (سیاسی، سماجی و معاشی) کو نظر انداز کرکے محض مذہبی پہلو سے دیکھا اور اس پر بھی کوئ خاطر خواہ عمل نہ کر پاۓ۔


اگر آج ہم ارتقا کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں اور دنیا سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ آپﷺ کی زندگی کے ہر پہلو سے رہنمائی لیں۔ کیونکہ دنیا کی کوئ بھی قوم یا جماعت اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ حقیقی رہبر کی حیات سے مکمل طور پر واقفیت اور مطابقت نہ رکھتی ہو۔ کیونکہ اللہ تعالی قران مجید میں فرماتے ہیں کہ
"لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ"
کہ تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ اور عملی کردار ہے۔


اس لیے یہ درست نہیں کہ ہم ان کی سیرت کو محض چند عبادات تک محدود کردیں بلکہ ان کی حمد و ثناء بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی و سماجی زندگی سے بھی رہنمائی لی جاۓ اور اس پر حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے   ملک پر قابض فرسودہ نظام کا خاتمہ کر کے سیرت النبیﷺ کی روشنی میں انسانی بنیادوں پر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے تاکہ ہم اپنی دنیاوی و اخروی زندگی کو جنت بنا سکیں اور انسانیت سکون کا سانس لے۔
بیشک یہی انسانیت کی معراج ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :