”سرمایہ دارانہ نظام آج کا طاغوت“

پیر 21 ستمبر 2020

Azhar Hassan

اظہر حسن

طاغوت بنیادی طور پر شیطان کیلئے استعمال  ہوا ہے۔ طاغوت سے مراد ظالمانہ قوتیں اور ظالمانہ نظام ہیں۔ طاغوت ایک ایسا نظام ہے جس میں بندوں پر خدا کی بجائے  بندوں کی خدائی  ہو اور وہ ہمہ وقت اپنے سے کم تر کی گردنیں دبوچنے میں مصروف ہوں۔
اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس نے کبھی نمرود و فرعون کے  بنائے نظاموں کے ذریعے لوگوں کو برائ   میں جکڑے رکھا ٗ کبھی ابوجہل و ابو لہب کے ظالمانہ نظام کے ذریعے لوگوں کی حق تلفی کی تو کبھی قیصر و کسری کی صورت میں لوگوں کی گردنوں پر حکمرانی کرتا رہا۔


یہ ایک ایسا نظام ہے جو قلیل طبقے کو نواز کر اکثریت کو حقوق سے محروم کرتے ہوئے انہیں برای کے عمیق گڑھے میں دھکیل کر  واپسی کے تمام راستے بند کرتا چلا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


اگر ہم آج کے دور میں دیکھیں تو طاغوت کا اطلاق بلاشبہ سرمایہ داری نظام اور اس کی بین الاقوامی تشکیل یعنی سامراجیت پر ہوگا۔
یہ سرمائے کا  وہ بنیادی تصور ہے جس کی اساس سرمائے کے اصل ہونے اور انسانیت کے اس کے تابع ہونے پر ہے۔

سرمایہ داری نظام کا مطلب ہی یہی ہے کہ جب بھی سرمائے اور انسان کے درمیان ٹکر پیدا ہو تو سرمائے کو بالادستی ہو گی۔ اور انسانیت سرمائے کے تابع قرار پائے گی۔ الغرض یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سرمایہ دارانہ سوچ ہی اس دور کا طاغوت اور تراشا ہوا بت ہے جس میں سرمائے کے حصول کیلیے ہر کوئ اس بت کی پرستسش میں مبتلا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا طاغوت ہے جو تعیشات میں مبتلا کرکے مفاد پرستی پر ابھارتے ہوئے نفسانفسی کا عالم برپا کرتا ہے جس میں ہر کوئ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف رہتا ہے۔


یہ نظام واضح طبقات پیدا کرتا ہے۔ اس میں ایک قلیل استحصالی طبقہ اجتماعی وسائل  پر قابض ہو کر اکثریت کو محروم کرتا چلا جاتا ہے۔ اور وہ محرومی کا شکار طبقہ ہر طرح کی برائ میں جکڑا نظر اتا ہے۔ کیونکہ جب جائز  طریقے سے انکی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو وہ ہر ناجائز  طریقہ اپناتا ہے تاکہ زندہ رہ سکے اور اس سماج کا کسی حد تک مقابلہ کر سکے۔


الغرض اس کے اندر ہر طرح کی برائ پائ جاتی ہے جس میں چوری ٗ ڈکیتی ٗ ملاوٹ اور زنا جیسی برائیاں عام ہیں۔
جہاں محروم طبقہ محرومی کی وجہ سے ان مسائل میں جکڑا نظر اتا ہے تو وہیں استحصالی طبقہ سرمائے کی وجہ سے ان برائیوں کا شکار ہوتا  چلا جاتا ہے اور وہ سرمائے کو مزید بڑھانے کی غرض سے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جس میں کرپشن کا عنصر نمایاں ہے۔

الغرض پورا سماج ہی زبوں حالی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔
اگر ہم مملکتِ پاکستان پر نظر دوڑائیں تو بد قسمتی سے اس پر بھی سرمایہ دارانہ نظام ہی قابض ہے۔ اور پاکستانی معاشرے کو ہر طرح کی برائ میں جکڑ کر ایک قلیل استحصالی طبقہ اس ریاست کو ہر طرح سے لوٹنے میں مصروف ہے۔
یہ اس ملک میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت ہی ہے کہ انصاف ہوتا نظر نہیں آتا اور سرمائے کے بل بوتے ایک  سرمایہ دار دن دیہاڑے پولیس والے کو کچل کر آگے بڑھ  کر اگلے دن باعزت بری ہو جاتا ہے۔

اور اگر یہی جرم کسی غریب سے سرزد ہو جاے تو اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
یہ سرمایہ ہی کہ جس کے بل بوتے ایک بڑے گھر کا بگڑا لونڈا اپنے گھر کام کرتی ملازمہ کو زیادتی کا نشانہ بنا دے تو اسے کوی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اور اگر خوش قسمتی  سے کوئ  ہاتھ اس تک پہنچ بھی جائے تو روپے کے ذریعے خاموش کروا کے  معاشرے کو مزید بگاڑ کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے۔


اس لیے بلاشبہ ضرورت اس امر کی  ہے کہ اس طاغوتی نظام سے چھٹکارا حاصل کرکے  ایک ایسا نظام نافذ کیا جائے جس میں تمام وسائل  اجتماعی ترقی کیلئے خرچ ہوں اور وہ بغیر رنگ و نسل ہر کسی کی کفالت کرے۔
تمام ذرائع پیداوار اس طرح آزاد ہوں کہ وہ ایک خاص  طبقے کے ہاتھ میں ہونے کی بجائے  اکثریت کے حق میں ہوں. اور اس میں قوانین کے ذریعے حفاظت و ترقی کا سامان فراہم ہو تاکہ اس برائ کے عمیق گڑھے میں دھنسے معاشرے کو نکالا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :