”وقت بدل جاتا ہے“

جمعہ 15 مئی 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

معلوم ہوا ہے کہ شمالی کوریا کے وزیر دفاع ہیون یانگ چول جو سرکاری تقریبات میں سو جاتے تھے ان کو وہاں کے سپریم لیڈرکم جونگ ان نے غداری کے مترادف قرار دیتے ہوئے سزائے موت دی ہے،موت بھی ایسی کہ جو دوسروں کیلئے نشان عبرت بن گئی،ہیون یانگ کو توپ کے سامنے کھڑا کرکے گولے سے اڑا دیا گیا ہے،اب شاید شمالی کوریامیں ایسے لوگ راتوں کو بھی نہ سو پائیں۔

یہان خبر سنانے کا مقصد کیا تھا شاید آپ کو اگے چل کر سمجھ آ جائے۔
سندھ میں اکثریت رکھنے والی جماعتیں جو ماضی میں ایک دوسرے کی اتحادی رہیں ان کا ستارہ گردش میں ہے،ایک دوسرے پر سنگین قسم کے الزامات لگا رہے ہیں تو ان کی اپنی صفوں سے بغاوت کے علم بلند ہو رہے ہیں،دوسری طرف صوبے کے دارالحکومت کی صورتحال یہ ہے کہ دن کو بھی اہل کراچی سہمے ہوئے نظر آتے ہیں،دن دہاڑے چوراہے میں ایک مخصوص کمیونٹی(اسماعیلی)کی بس کو روک کر سوار لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے،صوبے کے سائیں وزیر اعلٰی جن کی حالت یہ ہے کہ ان کی عمر میں تو بسوں کو بھی کھٹارہ قرار دے کر کباڑ میں بیچ دیا جاتا ہے، نیند سے بیدار ہوئے تو لاؤ لشکر لے کر جائے وقوعہ پر جاپہنچے۔

(جاری ہے)

جس نے زخمیوں کے رستے خون پر مرہم کے بجائے نمک کا کام کیا
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
لوگ کہتے ہیں کہ ان دونون پارٹیوں کو ان کے گناہوں کی سزا ملنے والی ہے،کچھ تو اسے مکافات عمل کا نام بھی دے رہے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی سچائی ہے ،ہم ذرا ماضی میں جائیں تو بہت کچھ ڈھونڈنے سے مل جائے گا،زیادہ دور نہیں۔

مئی 2007 سے مئی 2015 کے درمیانی سفر پر نظر دوڑا لیجئے بہت کچھ سمجھ میں آجائے گا !
اب ذرا پیپلز پارٹی کی جانب رخ کریں تو یہاں قیصرو کسریٰ(بلاول ہاؤس) کے محل کے کنگرے گرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ بدین کے قلعہ نما گھر میں موجود پیپلزپارٹی کا بگڑا ہوا جیالا(مرزا) اسلحہ سے لیس اور پوری کی پوری فوج کے ساتھ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتا رہا،تھانوں پر حملہ آور ہوا،اداروں کی تذلیل کرتا رہا،پولیس افسروں کے گریبان تک جا پہنچا،ریاست دیکھتی رہی،سنگین الزامات آئے،انکشافات ہوئے،کسی نے کان نہیں دھرے،ہو سکتا ہے اس کے اپنے پارٹی سربراہ اور بچپن کے دوست کے خلاف الزامات بھی ٹھیک ہونگے لیکن جو طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے یا کیا گیا،کیایہ درست ہے؟ یہی کام تو لال مسجد والوں نے بھی کیا تھا،یہی کام تو بلوچستان میں بلوچوں نے بھی کیا تھا،وہ تو بموں سے راکھ کے ڈھیر بنا دیے گئے،کئی لاپتہ کردیے گئے،کیا یہ طاقتور ہے؟کیا جس پر الزام لگایا جارہا ہے وہ قانون سے بالا تر ہے؟ نہیں تو پھر کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟شاید میری طرح کئی لوگ بھول بیٹھے ہیں کہ یہ ان کا ملک ہے،یہ وطن ان کا ہے،نہیں نہیں یہ ملک صرف جاگیرداروں کی جاگیرہے جیسے چاہا ہل چلادیے،یہ سرمایہ داروں کی خریدی ہوئی کمپنی ہے کہ جیسے چاہا نیلام کردیا ،یہ بیس کروڈ انسانوں کا ملک نہیں ہے یہ بیس کروڑ تو ان کیلئے کیڑے مکوڑے ہیں،جیسے چاہا مسل دیے
اللہ نے ان جماعتوں کو سنبھلنے کا موقع دیا ان کی رسی دراز کی کہ شاید سنبھل جائیں۔

کاش کہ اس ظالمانہ سیاست کو سمجھ سکتے کہ جو اپنے ہی بچے کھا جاتی ھے ۔پرویز مشرف ، سلمان خان ،ماڈل ایان علی(ملک)اور ذوالفقار مرزا کے کیساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے پتہ چلتا ھے کہ پینل کوڈ ھند کا ہو یا پاکستان کا ، یہ بات تو طے ہے کہ اگر آپ صاحب استطاعت ھیں قوت و اختیار رکھتے ھیں اثرو رسوخ یا پھر پیسے، تو دونوں ممالک کے سارے نظام انصاف ملکر بھی آپکا کچھ نہیں بگاڑسکتے !
اور اگر آپ غازی رشید ھیں اکبر بگٹی ھیں یا پتنگ اڑانے والے گیارہ سالہ پاکستانی ہی کیوں نہ ہوں پینل کوڈ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ویسے ہی انصاف ھوجاتا ھے ۔

رہی بات ایان علی کی تو اس کے غم میں گھلنے کی ضرورت نہیں، کیا جج کیا جیلر کیا پولیس والے کیا سیاست دان اور کیا ہی فیس بکی ، ہر کوئی اسے رہا کرانے کے چکروں میں ھے ویسے بھی اسے جو شہرت یا بدنامی جیل سے ملی وہ ساری زندگی کی بلی چال(کیٹ واک) سے بھی نہ مل سکتی تھی تو وہ اسے انجوائے ھی کر رھی ھے۔
کراچی میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پورا کا پورا اسلام آباد اور راولپنڈی وہاں پہنچ جاتا ہے،اجلاس کرتا ہے کھاتا پیتا ہے،میڈیا کے سامنے کچھ رٹے رٹائے روائتی لفظ بولے جاتے ہیں،زخمیوں اور مرنے والوں کے جسموں کے دو لاکھ،پانچ لاکھ لگائے جاتے ہیں اور سکون سے اگلے واقعہ کا انتظار کیا جاتا ہے،اگر کچھ کرنا ہی نہیں تو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟جنہوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ سانحات کا انتظار نہیں کرتے وہ سونے سے پہلے ہی ان کو ایسی نیند سلاتے ہیں کہ آئندہ کوئی ایسی جرائت نہ کرسکے،میرے ملک کے چیف ایگزیکٹو صاحب کی سمجھ میں مسئلے کا حل نہیں آرہا تو کسی کسان ہی سے پوچھ لیں ۔

کیوں؟جب کسی کسان کا بیل بوڑھا ہوجاتا ہے یا کوئی جوان بیل کھیت میں ہل چلانے کے دوران بیٹھ جاتا ہے تو وہ اسے گھر میں نہیں رکھتا قصائی کے حوالے کردیتا ہے،یہ کراچی،ملک کے حالات جوں کے توں ہی رہیں گے جب تک یہ دھماکوں سے جاگنے والے نظام چلاتے رہیں گے،بیل بدلنے کا وقت ہے بدل لیجئے نہیں تو وقت بدل جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :