تحریک طالبان پاکستان اور سانحہ پشاور

جمعرات 18 دسمبر 2014

Babar Saleem Nayab

بابر سلیم نایاب

پاکستان تاریخ کا بدترین سانحہ پشاور جس میں علم کی شمع روشن کرنے والے معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا شاید دنیا کی خطرناک سے خطرناک ترین جنگوں میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی مسلمان تو دور کی بات اس قسم کی حرکت تو غیر مسلم بھی کرنے کی جرات نہیں کر سکتا دہشت گردوں نے پاکستان پر ایک ایسی قیامت ڈھائی ہے جسکی صدیوں تک تلافی نہیں ہو سکی ایک ایسا زخم ہے جو وقت کے ساتھ بڑھے گا مگر کم نہیں ہو گا کیا کوئی ان معصوم پھول جیسے بچوں کو شہید کر کے جنت کے راستوں کا متلاشی ہے اسلام کی غلط تشریح کرنے والوں نے ان معصوم بچوں کو ہی شہید نہیں کیا بلکہ اس پورے ملک میں بسنے والوں کے د لوں کو ہی لہولہان کر دیا ہے ہر ایک آنکھ اشکبار ہے کیا کوئی ایسا صبر کا پیمانہ ہے جو ان بچوں کی ماؤں کو ضبط دے گا یقینا ایسا ممکن نہیں ۔

(جاری ہے)


محمد رفیع مرحوم کا سدابہار گانے کی وہ بازگشت ۔۔۔یہ زندگی کے میلے دنیامیں کم نہ ہوں گئے افسوس ہم نہ ہوں گئے۔مگر اب یہ زندگی کے میلے رہے ہی کہاں ہیں اب تو یہ درندگی کے میلے بن چکے ہیں محبت و اُلفت اپنے ہی وجود میں کہیں گُھٹ کر مر گئی ہے احساس دلائیں بھی تو دلائیں کس کو یہاں تو بے حسی ہی انسانیت کا اولین فریضہ بن چکی ہے مختلف دھڑوں طبقوں میں تقسیم یہ معاشرہ کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ہونے کے فتوے بانٹ رہا ہے کوئی روشن خیالی کو اسلام کا دشمن قرار دے کر اُس کی کردارکشی میں مصروف عمل ہے تو کوئی مذہبی انتہاپسندوں کو اسلام اورانسانیت کا دشمن قرار دے رہا ہے مگر ظلم کرنے والے تو ظلم کر رہے ہیں بلکہ اُن کے ظلم میں مزید اضافہ ہو تا جا رہے مگر بدقسمتی سے ظلم کی شکار قوم مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو کرآپس میں اپنے علم و منطق کی بنیاد پر آپس میں اُلجھنے میں مصروف ہے مگر شکر ہے اس افسوسناک سانحہ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ تمام سیاسی لیڈر شپ سر جوڑ کے بیٹھی ہے اور تقریبا ساری سیاسی جماعتوں نے دہشت گردوں کے خلاف حکومت کے ہر اقدام کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور یہ ایک بہت زیادہ خوش آیند بات ہے کہ ہم اس پرچم کے سائے تلے ایک ہیں ہمارے دکھ اور سکھ بھی ایک ہیں
پاکستان میں سسکیاں لیتی ہوئی انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ اور درندوں سے بھی بدترین ہونے کا اعزاز آ جکل تحریک طالبان پاکستان نے لے رکھا ہے پشاور سکو ل پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل الله نے قبول کر لی ہے جو افقانستان میں روپوش ہے اور وہی سے منصوبہ بندی کر کے پاکستان کے اندرخون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہے ۔

گر ہم کچھ عرصہ پہلے والے پاکستان کو دیکھیں تب خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا اتنا رواج نہیں تھا اگر خدانخواستہ کوئی دھماکہ ہو بھی جاتا تو تحقیق ہوتی تو اُس کے تانے بانے انڈیا کی مشہور بدنام زمانہ انٹیلی جینس ایجنسی را سے جا ملتے تھے اُس وقت را کا بنیادی مقصد پاکستان میں فرقہ ورانہ فسادات کو بھڑکا کر قتل و غارت کروانا ہوتا تھا یاپاکستان کی سیکرٹ معلومات اپنے جاسوسوں کو بھیج کر حاصل کرنا ہوتی تھی مگر اب وہ دور گیا اب را کو اپنے جاسوس بھیج کر کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب یہ کام انتہائی زور شور سے کرنے کا ٹھیکہ تحریک طالبان پاکستان نامی ایک دہشت گرد تنظیم نے سنبھال لیا ہے اور اس تنظیم کا بنیادی مقصد پاکستان میں انتشار پھیلانا لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا پاکستانی کے دفاعی اداروں کو کمزور کرنااور اپنے اپنے علاقو ں میں اپنی حاکمیت جما کر اس پاکستان پر قبضہ کا خواب دیکھ کر یہاں اپنا نام نہاد اسلام اور شریعت نافذ کرنا ہے جسکی اسلام میں زرا بھی گنجا ئش نہیں ۔

مسلمان مرد و عورت و بچوں کی تفریق کیے بغیر اُن کے جسموں کو چیتھڑوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر کے پھر اُن کے ناحق خون کی زمہ داری بڑی بہادری سے اور ببانگ دُہل انداز میں قبول کرنا اس تنظیم کا شیوہ بن چکا ہے میرا خیال ہے جس طرح کی وحشیانہ کھیل اور درندگی سے بھرپور کردار ادا کرنے میں اس دہشت گرد تنظیم کو مزہ آ تا ہے اس کو دیکھ کر ہلاکو خاں کی روح بھی لرز جاتی ہو گئی اور انڈیا کی انٹیلی جینس ایجنسی را بھی دنگ رہ جاتی ہوگئی کہ اتنے وسیع پیمانے پر قتل و غارت خودکش حملے اور جس بھی شخصیت کو نشانہ بنانا چاہیں اس تنظیم کے لیے کوئی مشکل کام نہیں اتنا پاکستان کا جانی نقصان انڈیا سے لڑی جانے والی چار جنگوں سے نہیں ہوا جتنا پاکستان میں یہ نام نہاد طالبان نے پہنچا یا ہے ۔

مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج تک ہم اس دُشمن کو سمجھ نہیں سکے ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی اس بارے میں تقسیم کا شکار ہی ہیں اور ماضی قریب میں ان سفاک دہشت گردوں کی سیاسی حمایت بھی کرتی رہی ہیں اور کبھی ان دہشت گرد سفاک درندوں یعنی تحریک طالبان کا نام لیکر مذمت کرنے کا تو چھوڈو بلکہ ان دہشت گردوں کے سربراہ کو شہید کے خطابات سے بھی نوازتی رہتی ہیں یار رکھیں اور خدا سے ڈریں ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے ۔

اور ان سفاک دہشت گردوں کی صفائی میں یہ دلیلیں دیتے نظر آتے ہیں کہ جناب ان پر ڈرون حملے ہوتے ہیں تو پھر یہ اُن کا بدلہ تو لیں گے۔
واہ کیا منطق ہے کیا فلاسفہ ہے مطلب اگر کوئی ناحق قتل ہو تو اُس کے لواحقین اپنے مجرم کی بجائے دوسروں پر حملہ شروع کر دیں پھر اگر آپ کی دلیل مان بھی لی جائے تو پھر جو پاکستان کے تقریبا پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگ بم دھماکوں اور خودکُش حملوں میں شہید ہوئے ہیں پھر اُن کے لواحقین بھی یہی کام کرتے اپنے پیاروں کے خون کا بدلہ آپ اور میرے جیسے لوگوں سے لیتے ہیں،یہی دہشت گرد جنہوں نے ہر دھماکے اور حملے کے بعد اُس کی زمہ داری ببانگ دہل سے قبول کی ہے اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد آج تک کبھی ندامت کا لفظ تک نہیں بولا اور نہ ہی مستقبل قریب میں بول سکتے ہیں کچھ عرصہ پہلے بنوں اور راولپنڈی میں جس قدر تباہی مچائی اُس نے پوری قوم کو لرزا کر رکھ دیا ہے مگر یہاں بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے حکومت وقت کو خبردار کیا ہے کہ یہ معصوم طالبان کے خلاف کوئی آپریشن نہ کیا جائے واہ کیا سیاسی بیانات ہیں اتنے شاندار بیانات اور اُن معصوم طالبان کا دفاع کرنے کے لیے کبھی کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے اور پھر کہا جاتا ہے کہ جناب صرف مذاکرات ہی واحد حل ہے ۔

ہاں جناب بالکل مذاکرات ہی واحد حل ہے مگر مذاکرات کن کے ساتھ ہوں مذاکرات تو اُن کے ساتھ ہوتے ہیں جوتھوڑی بہت احساس انسانیت رکھتے ہوں جن کا خمیر صرف خون کرنا ہو پانی کی طرح بے گناہ اپنے ہی پاکستانی لوگوں کا خون بہانا ہو اُن کے ساتھ مذاکرات جیسا لولی پاپ کبھی نہیں چلتا ۔
مگر شکر ہے پاکستانی فوج نے چاہے قدرے تاخیر سے ہی سہی آپریشن ضرب عضب شروع کر کے ان درندوں کو ان کے بھیا نک انجام تک پہنچانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور میرے الله نے چاہا تو وہ وقت دور نہیں اور معصوم شہید بچوں کی ماؤں کی بددعاعیں الله ضرور قبول کرے گا ۔

آج ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمارا اپنا ہے ہم چاہے لاکھ آنکھیں چر ا لیں مگر یہ کڑوی حقیقت ہمیں نگلنا پڑے گئی ماضی میں کی گئی سنگین اور بدترین غلطیاں آج ہمارے معصوم لوگوں کو بھگتنا پڑرہی ہیں آخر کب تک آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی عوام لہو کے نذرانے پیش کرتی رہی گئی ۔محفوظ دفتروں میں بیٹھے ہوئے حکمران کیا جانے جب زندگی کا بے رحم قتل ہوتا ہے جب ہنستی کھیلتی زندگی کودرندگی سے کچلا جاتا ہے تو دلوں دماغ پر کیسے ازیتوں کے ہتھوڑے ہر لمہے لگتے ہیں جس کسی گھر کا چراغ بجھتا ہے وہی جانتا ہے کہ اس چراغ بجھنے سے پورا خاندان تار یکیوں اور غمناک اندھیروں میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتا ہے ۔

کیا کسی عام انسان کی جان جانا کوئی بڑی خبرنہیں ہوتی کیا صرف 5لاکھ سے کسی کے اشکوں روکا جا سکتا ہے کیا صرف مزمتی بیانوں سے دکھوں اور ہولناک غموں کے ٹوٹنے والے پہاڑوں پر صبر کا مرہم رکھا جا سکتا ہے ۔یہ سسکتی ہوئی سسکیاں ان ظالم اور درندہ صفت لوگوں کا کبھی پیچھا نہیں چھوڈیں گئی ان خون میں ڈوبے ہوئے آنسو ایسے ہی جزب نہیں ہوں گئے جب تک ان وحشی لوگوں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچا ئیں گئے ۔


دنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ہر قوم ملکی سلامتی کے معاملے پر اکٹھی نظر آتی ہیں زیادہ دور نہ جایئں ہم اپنے ہمسائے سر لنکا کو ہی دیکھ لیں جس کو پاکستان کی طرح ہی اپنے ملک میں ایسی ہی شدت پسندی نمٹنا پڑا مگر وہا ں کوئی کنفیوزڈ نہیں ہوا سب نے دشمن کو دشمن سمجھا۔ اکیآج ہمیں بحثیت قوم اب بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارے لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے ہی ہمارے اصل دشمن ہیں اُن کا کوئی مذہب کوئی دین نہیں وہ کافروں اور درندوں سے بھی بڑھ کر ہیں لہذا ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت ہمارے شہدا کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہو گئی ۔

پاکستان کے شہید بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا جلد ہی یہ سفاک طالبان اپنے بھیانک انجام کو پہنچے گئے پوری قوم اپنے شہید بچوں کے لواحقین کے ساتھ اس دکھ اور رنج کی گھڑی میں اُن کے ساتھ کھڑی ہے الله پاک اس قیامت خیز گھڑی میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے اور شہید ہونے والے ننھے پھولو ں کے درجات بلند کرے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :