”بیٹا امیر بن جاؤ“

جمعرات 16 جنوری 2020

 Ch Muhammad Atif Arain

چوہدری محمد عاطف آرائیں

سکولز اور  کالجز سے لاکھوں لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں خواہش  زیادہ جاننے کی نہیں ہوتی  بلکہ سب کی خواہش ہوتی ہے اس پڑھائی کے بعد امیر بننا ہے گاڑی بنگلہ ملے گا عیش کرنی ہے
مگر حقیقت اس کے برعکس ہے انسان کو تعلیم باشعور بننے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ امیری کی ریس میں دوڑنے کےلئے  کسی شخص کو امیری یا غریبی دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی تعلیمی ادارے کے ہاتھ میں نہیں ہے اسلام میں علم حاصل کرنا فرض ہے اللہ کا شکر ہے ہم یہ فرض ادا کر رہے ہیں
لیکن کبھی سوچا ہمارا معاشرہ کیا کر رہا ہے ہم سب دولت کی چاہ میں  اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ دنیا میں آنے کا مقصد بھول گئے ہیں میرا ماننا ہے کہ ہمیں لالچ میں نہیں پڑنا چاہیے جو اللہ دے اس پر راضی رہیں اور روکھا سوکھا کھا کر بھی اللہ کا شکر ادا کریں کیونکہ دنیا میں ہم خالی ہاتھ ہی آئے تھے سب کچھ ہمیں اللہ نے ہی عطا کیا ورنہ ہمارے پاس تھا ہی کیا۔

(جاری ہے)

آج لوگ دولت کی تلاش میں ہیں امیر ہونے کے خواب زیادہ سے زیادہ دولت مل جائے پھر سکون ملے گا نہیں سکون صرف اللہ کی رضا میں ہے بتائیں اللہ نے کب کہا لالچ میں پڑو جتنا ملتا ہے شکر ادا کرو اور کہیں ناکام ہو جاؤ تو صبر کرو اور پہلے سے بھی زیاہ محنت کرو پھر پھل پاؤ گے
گاڑی یا بنگلہ بنا لینے سے آپ کی دنیاوی زندگی میں تو لازمی فرق پڑے گا  لیکن آخروی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا یہ چیزیں خریدنے پر اللہ ہمیں آخرت کے لئے کوئی پوائنٹس نہیں دے رہا  کیوں کہ اللہ نے گاڑی یا بنگلہ لینے والے کو کوئی انعام دینے کا نہیں کہا انعام و کرام ان کے لئے ہیں جو سچے مومن ہیں اللہ سے ڈرتے ہیں وہ جو عطا کر رہا ہے اس پر راضی ہیں  نا شکری نہیں کرتے جو صبر کرتے ہیں اللہ انہیں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اتنی نعمتیں دیتا ہے کہ پھر اللہ  کے آگے جھولی پھیلانا بھی ایک نعمت بن جاتی ہے
ہماری دنیاوی زندگی میں اور آخروی زندگی میں جو چیز یکساں تبدیلی لا سکتی ہے وہ ہے دین اسلام سے محبت اللہ سے محبت حضرت محمدؐ سے عشق آپ ؐ کو دولت کی کوئی چاہ نہیں تھی اللہ کے رسول ؐ  ہو کر بھی سادگی سے زندگی بسر کی آج محلوں میں سونے والے خود کو بہت بڑا بادشاہ تصور کرتے ہیں ہمارے رسول ؐ بادشاہوں کے بادشاہ تھے وہ ٹوٹا بوریا بچھا کر سوتے تھے حضرت محمد ؐ دو جہانوں کے سردار تھے  میرے آقا ؐ کی عاجزی اور انکساری لاجواب تھی مجھے کسی رئیس  کی دولت شہرت کا نا بتاؤ میں حضرت محمد ؐ کا امتی ہوں جن کے پاس علم کی دولت تھی آج اس مقام کو جو میرے نبی ؐ نے دولت کے بغیر پایا کوئی رئیس دولت شہرت سے ویسا مقام پانا تو دور کی بات اس مقام کو چھو بھی نہیں سکتا
گاڑی بنگلہ بنا کر دنیا میں مزے پائے جا سکتے ہیں آپ شوق سے پائیں مگر آپ اتنی ہمت ضرور رکھنا کہ آخرت میں حساب دے سکو
آج آپ کے پاس دولت آجائے زیادہ تر  لوگوں کی خواہش ہوگی کہ اس دولت سے گاڑی  یا گھر لیں گے مگر مسلمان ہوتے ہوئے بھی یہ خواہش کیوں نہیں جاگی کہ  ہم اس دولت سے پہلےمسجد بنائیں گے یا ضرورت مندوں میں تقسیم کریں گے پھر جو بچا اس سے ضرورت پوری کر لیں گے مگر آج یہ سوچ کہاں ہم آج دنیا میں ذلیل و رسواہ ہو رہے ہیں اور انگریز کفار ہم کو آنکھیں دیکھا رہے ہیں کیونکہ ہم  نے دین اسلام ایک نام کا دین بنا دیا ہے ہم نام کے مسلمان بنے پھرتے ہیں اسلام سے دور ہونے کی وجہ سے اللہ نے ہم کو خود سے دور کردیا ہے ہمیں دامنِ رسول ؐ  تھام لینا چاہیے امتِ محمدی ؐ ہیں ہم  سچے امتی رسول ؐ بن گئے تو کفاروں کے ٹولوں کو عبرتناک شکست ہو گی اللہ ہم سب کو دین اسلام پر قائم رکھے ہم صرف امیر ہونے کے لیے نہیں آئے ہمارا مقصد کچھ اور ہے اس دنیا میں ہمارا امتحان ہو رہا ہے یہاں سے ہی اندازہ لگا لیں کے اللہ دنیا میں امیری غریبی کا فیصلہ کر رہا ہے اور محلوں میں سونے والے اور فٹ پاتھ پہ سونے والے دونوں ایک جیسی مٹی میں مل رہے ہیں امیر زندگی نہیں خرید سکتا اسکا بھی انجام موت ہی ہے جو ایک غریب کا بھی ہے ہم سب کی زندگی کا آغاز چاہے مختلف ہو رہن سہن مختلف ہو ہم سب کا انجام ایک جیسا ہی ہے
بھاڑ میں جائے یہ امیری
راس ہے ہمیں فقیری

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :