قرآن و حدیث میں شاعروں کا ذکر الہامی اور شیطانی شاعری

پیر 4 جنوری 2021

 Ch Muhammad Atif Arain

چوہدری محمد عاطف آرائیں

ایک وقت تھا جب میں بھی عاشقی معشوقی کی شاعری لکھتا اور پڑھتا تھا پھر اللہ نے میری رہنمائی کی اور مجھے ہدایت دی اب میری شاعری اللہ کی مدد سے اسلام پر ہوتی ہے نعتیں اور کلام لکھتا ہوں قرآن و حدیث نے میرا قلب اور آنکھیں روشن کر دی ہیں
شاعری کی دو قسمیں ہیں الہامی شاعری اور شیطانی شاعری
الہامی شاعری :
شاعر جب حضرت محمدؐ کی تعریف لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے اللہ اس کی مدد رحمانی الہام کے ذریعے فرماتا ہے حق کے لیے لکھی جانے والی شاعری باطل کو ناگوار گزرتی ہے ایسی شاعری آپ کو دوسروں تک پہنچانی چاہیے (نعت کلام قوالی الہامی شاعری میں شامل ہے) اسلام کے متعلق شاعری ہی الہامی شاعری ہے ۔

اولیاء اللہ صوفیاء کرام کی شاعری کلام قوالی میں لفظ عشق کا مطلب اللہ اور محمدؐ  کا عشق ہے عشق حقیقی کے متعلق شاعری الہامی شاعری ہے۔

(جاری ہے)


شاعرمشرق ڈاکٹر محمد اقبالؒ  کی شاعری الہامی شاعری ہے اولیاء اللہ صوفیاء کرام ؒ  کی شاعری بھی الہامی شاعری ہے۔
علامہ اقبال ؒ نے کبھی عاشقی معشوقی والی شاعری نہیں کی اقبال ؒ نے ایسے شعراء پر تنقید کی ہے جنہیں نامحرم اور عاشقی معشوقی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔


علامہ اقبال ؒ اپنی کتاب ضرب کلیم میں فرماتے ہیں
نظم : ہنروران ہند کتاب : ضرب کلیم
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار
(شیطانی شعراء کو عشق و معشوقی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا یہ صرف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں)
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار
(شیطانی شعراء ابن آدم سے بلند روحانی مقامات چھپاتے ہیں روحانیت سے دور کرتے ہیں نامحرم کی عاشقی میں مبتلا کرکے بدن کو بیدار کرتے ہیں)
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
(پاکستان اور ہندوستان کے شعراء جو شیطانی شاعری کرتے ہیں اور افسانے لکھنے والوں کو عورت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا نامحرم عشق ان کے اوپر سوار ہے)
شیطانی شاعری :
دنیاوی محبت نا محرم عاشقی معشوقی شیطانی شاعری ہے
شراب نامحرم سے عشق معشوقی نامحرم محبت کے شعر یہ شیطانی الہام ہوتے ہیں جو شعراء بے حیاء شاعری کرتے ہیں وہ شیطانی الہام کو مانتے ہیں آپ ایسی شاعری نہ لکھیں نہ پڑھیں نہ دوسروں تک پہنچائیں
قرآن و حدیث میں شعراء کا ذکر :
سورت شعراء کی آیات 221 سے 227  تک یہ آیات شاعروں کے متعلق ہیں آیت نمبر 221 سے لے کر 226 تک شیطانی شعراء کا ذکر ہے آخری آیت نمبر 227 میں حق گو شاعروں کا ذکر ہے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
سورت شعراء
آیات نمبر (223-222-221)
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُؕ(۲۲۱)تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۲۲۲)یُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ(۲۲۳)
ترجمہ :
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں۔

وہ ہر جھوٹے بہتان طراز گناہگار پر اترا کرتے ہیں۔جو سنی سنائی باتیں ان کے کانوں میں ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔
آیات نمبر (226-225-224)
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ(۲۲۴)اَلَمْ تَرَ اَنَّهُمْ فِیْ كُلِّ وَادٍ یَّهِیْمُوْنَۙ(۲۲۵)وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَۙ(۲۲۶)
ترجمہ :
اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ شعراء ہر وادئ خیال میں یونہی سرگرداں پھرتے رہتے ہیں (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)۔اور یہ کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے۔
شیطانی شاعری کرنے والوں  اور سننے، پڑھنے والوں  کو نصیحت:
اس سے معلوم ہوا کہ شاعروں کا جھوٹے اور باطل اَشعار لکھنا،انہیں پڑھنا،دوسروں کو سنانا اورانہیں معاشرے میں رائج کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو ایسے اشعار لکھتے ہیں جو دین اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہوں اور بے حیائی، عُریانی اور فحاشی کی ترغیب پر مشتمل نیز عورت اور مرد کے نفسانی جذبات کو بھڑکانے والے الفاظ کے ساتھ شاعری کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی نصیحت حاصل کریں جو ان کی بیہودہ شاعری سنتے، پڑھتے اوردوسروں کو سناتے ہیں ۔


حضرت عبداللہ بن عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :
’’اگر تم میں  سے کسی شخص کا پیٹ  پیپ سے بھر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں  سے بھرا ہوا ہو۔
( بخاری، کتاب الادب، باب ما یکرہ ان یکون الغالب علی الانسان الشعر۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۴)
حضرت بریدہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے اسلام میں  فحش اور بے حیائی پر مشتمل اشعار کہے تو ا س کی زبان ناکارہ ہے۔

"
( شعب الایمان ، الرابع و الثلاثون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فی حفظ اللسان عن الشعر الکاذب ، ۴ / ۲۷۶ ، الحدیث: ۵۰۸۸) اور ایک روایت میں  ہے کہ اس کا خون رائیگاں  گیا
آیت نمبر 227
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ انْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاؕ-وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۠(۲۲۷)
ترجمہ : سوائے ان شعراء کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہے (یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدح خواں بن گئے) اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد ظالموں سے بزبانِ شعر انتقام لیا (اور اپنے کلام کے ذریعے اسلام اور مظلوموں کا دفاع کیا بلکہ ان کاجوش بڑھایا تو یہ شاعری مذموم نہیں)، اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ مرنے کے بعد کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جاتے ہیں۔


اس آیت میں  مسلمان حق گو شاعروں کا اِستثناء فرمایا گیا کیونکہ ان کے کلام میں دوسرے شاعروں کی طرح مذموم باتیں  نہیں ہوتیں  بلکہ وہ اشعار کی صورت میں  اللہ تعالٰی کی حمد لکھتے ہیں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت لکھتے ہیں ، دین ِاسلام کی تعریف لکھتے ہیں ،وعظ و نصیحت لکھتے ہیں اور اس پر اجرو ثواب پاتے ہیں
( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۳۹۹، ملخصاً)
اسلامی شاعری سے حضرت محمد کی محبت :
دربارِ رسالت کے شاعر حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی شان :
حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  فرماتی ہیں :
"رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد ِنَبوی شریف میں  حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے منبر رکھواتے تھے۔

حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس پر کھڑے ہو کر
اشعار کی صورت میں  رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعریف و توصیف بیان کرتے اورکفار کی بدگوئیوں  کا جواب دیتے تھے اورحضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (ان کے حق میں فرماتے تھے کہ جب تک حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کفار کی بدگوئیوں  کا جواب دے رہے ہوتے ہیں  اللہ تعالٰی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے ان کی مدد فرماتا ہے۔


( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۵، الحدیث: ۲۸۵۵)
ایک اور روایت میں ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرماتے:
’’تم اللہ تعالٰی کے رسول کی طرف سے کفار کی بد گوئیوں  کا جواب دو۔ پھر دعا فرماتے اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو حضرت حسان  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعے مدد فرما۔


( بخاری، کتاب الادب، باب ہجاء المشرکین، ۴ / ۱۴۲، الحدیث: ۶۱۵۲)
یاد رہے کہ اشعار فی نفسہ برے نہیں کیونکہ وہ ایک کلام ہے، اگر اشعار اچھے ہیں تووہ اچھا کلا م ہے اور برے اشعار ہیں  تو وہ برا کلام ہے۔    
حضرت عروہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’شعر ایک کلام ہے،اچھے اشعار اچھے کلام کی طرح ہیں  اور برے اشعار برے کلام کی طرح ہیں ۔


( سنن الکبری للبیہقی،کتاب الحج،باب لایضیق علی واحد منہما ان یتکلّم بما لا یأثم فیہ۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۱۰، الحدیث: ۹۱۸۱)
حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُا  فرماتی ہیں
’’ بعض اشعار اچھے ہوتے ہیں  اور بعض برے ہوتے ہیں ، اچھے اشعار کو لے لو اور برے اشعار کو چھوڑ دو۔
( ادب المفرد، باب الشعر حسن کحسن الکلام ومنہ قبیح، ص۲۳۵، الحدیث: ۸۹۰)
   حضرت اُبی بن کعب  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’بعض شعر حکمت ہوتے ہیں ۔

‘‘
( بخاری، کتاب الادب، باب ما یجوز من الشعر والرجز۔۔۔ الخ،۲ / ۱۳۹، الحدیث: ۶۱۴۵)
رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس مبارک میں  بھی شعر پڑھے جاتے تھے جیساکہ ترمذی شریف میں  حضرت جابر بن سمرہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، ۴ / ۳۸۶، الحدیث: ۲۸۵۹)
امام شعبی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا شعر کہتے تھے اورحضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان دونوں  سے زیادہ شعر فرمانے والے تھے۔


( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ۳ / ۴۰۰)
صالحین کیلئے شاعری اللہ تعالٰی کو کثرت سے یاد کرنے اور تلاوتِ قرآن کرنے سے غفلت کا سبب نہ بن سکی بلکہ ان لوگوں  نے جب شعر کہے بھی تو ان میں  اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء اور اس کی توحید بیان کی۔ رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت، صحابۂ کرام اور امت کے نیک لوگوں  کی تعریف بیان کی اور اپنے اشعار میں  حکمت، وعظ و نصیحت اور زہد و اَدب پر مشتمل باتیں ذکر کیں ۔


( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: ۲۲۷، ص۸۳۵-۸۳۶)
حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’تم اپنے مالوں ،اپنے ہاتھوں  اور اپنی زبانوں  کے ساتھ مشرکوں  سے جہاد کرو۔
( سنن نسائی، کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد، ص۵۰۳، الحدیث: ۳۰۹۳)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی،اور اس ذات کی قسم!جس کے قبضہِ قدرت میں  میری جان ہے،تم اسی شعر سے ان کفار کو تیروں  کے مارنے کی طرح مارتے ہو۔

"
(مسند امام احمد،من مسند القبائل،حدیث کعب بن مالک رضی اللّٰہ عنہ،۱۰ / ۳۳۵، الحدیث: ۲۷۲۴۴)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :