الیکٹرانک و پرنٹ میڈیاکے مالکان اور کارکنوں کی مشکلات

ہفتہ 22 دسمبر 2018

Chaudhry Abdul Qayyum

چودھری عبدالقیوم

ان دنوں پاکستان کا میڈیا مشکلات سے دوچار ہے۔ جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے تب سے ملک میں کئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہے۔ ان تبدیلیلیوں کے اثرات قومی میڈیا پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ مقامی میڈیا یعنی کہ چھوٹے اخبارات تو پہلے ہی مشکلات سے دوچار تھے اب بڑے بڑے قومی اخبارات کیساتھ نیوز چینلز بھی متاثر ہورہے ہیں۔ نیوز چینلز آنے سے اخبارات متاثر ہوئے تھے کہ ان کی سرکولیشن اور ریڈرشپ بہت کم ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں اخبارات کا اشتہاری بزنس کم ہوگیا تھا اب نئی حکومت نے سرکاری اخراجات میں کمی کرنے کے لیے ایک پالیسی کے تحت نہ صرف اخبارات بلکہ بڑے بڑے نیوز چینلز کے بھی سرکاری اشتہارات میں نمایاں کمی کردی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ نیوز چینلز اور اخبارات کو سرکاری اشتہارات کے بلوں کی وصولی بھی نہیں ہو رہی ہے جس سے نیوز چینلز اور پرنٹ میڈیا کے لیے معاشی مشکلات پیدا ہوگئی۔

(جاری ہے)

سٹاف اور ورکرز کو تنخوائیں نہیں مل رہی ہیں ہیں،ان معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے اخبارات اور نیوز چینلز اپنے سٹاف اور کارکنوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں جبکہ اخباری کارکن ،سٹاف اور اینکرز اپنی تنخواؤں کے حصول کے لیے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔

یہ صورتحال مجموعی طور پر میڈیا کیساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے جس کے سدباب کے لیے حکومت کیساتھ نیوز چینلز،میڈیا مالکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ میڈیا اور اس کے کارکنوں کو روزگار کیساتھ معاشی تحفظ حاصل ہو سکے۔حالیہ تین چار عشروں کے دوران دنیا میں جس قد ر تیزی کیساتھ ترقی اور تبدیلی آئی ہے اتنی ترقی اور تبدیلی شائد گزشتہ دو صدیوں میں بھی نہیں ہوئی تھی تیس چالیس سالوں کے دوران دنیا بالکل تبدیل ہو کر رہ گئی ہے اس تبدیلی میں میں سب سے اہم کردار انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ادا کیا ہے پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے لوگوں کا رہن سہن اور طرز زندگی تک تبدیل ہو گیا ہے۔

دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہونے کے چند سیکنڈ اور منٹوں کے اندر پوری دنیا کو اس کا علم ہو جاتا ہے، ہماری زندگی کے ہر شعبے کاروبار،میڈیا، تعلیم،صحت،کھیل سمیت ہر چیز پرانفارمیشن ٹیکنالوجی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میڈیا میں اخبارات بھی اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہوئے۔ پہلے اخبارات کے لیے کاتب حضرات ہاتھ سے کتابت کرتے تھے جس میں ایک تو بہت زیادہ وقت صرف ہوتا تھا۔

دوسرے اخبارات کی تیاری کے لیے بہت زیادہ کاتب ہوتے تھے اب کتابت کی جگہ کمپیوٹر پر کمپوزنگ ہوتی ہے جس پر ایک ماہر کمپوزر ایک دن میں اخبارات کے کئی صفحات تیار کر لیتا ہے ،اس سے جہاں اخبارات کی تیاری میں آسانی پیدا ہوئی تو اخبارات کے معیار میں کوالٹی کیساتھ جدت اور نفاست بھی آئی ایک اخبار کے کئی کئی رنگین ایڈیشن مختلف شہروں سے شائع کیے جاتے ہیں۔

اخبارات کا معیار اور صفحات بڑھنے سے اخبارات کی سرکولیشن بھی کئی گنا بڑھ گئی اخبار کے قارئین کی تعدا د اور اشتہارات میں بھی اضافہ ہوا دوسری طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی جہاں اخبارات کی ترقی کا باعث بنی توکچھ عرصہ بعد اسی ٹیکنالوجی نے اخبارات کو نقصان بھی پہنچایا ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اخبارات کے بعد جب الیکٹرانک میڈیا میں داخل ہو کر یہاں اپنے قدم جمائے تو ٹی وی چینلزکا ایک نیا دور شروع ہو گیا جس سے کیبل نیٹ ورک،ڈش انٹینا اور انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو منٹ منٹ کی خبریں ملنا شروع ہو گئیں۔

اخبارات سارے دن کی خبریں دوسرے روز صبح قارئین کو دیتے تھے وہی خبریں ٹی وی چینلز کے ناظرین بہت پہلے اپنے ٹی وی سکرین پر سن کر دیکھ چکے ہوتے تھے جس انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اخبارات کو ترقی ملی اسی ٹیکنالوجی کیوجہ سے اخبارات میں چھپنے والی خبریں قارئین کے لیے پرانی ہو چکی ہوتی تھیں لوگ خبریں پڑھنے کے لیے دوسرے دن اخبارخریدنے کی بجائے خبریں سننے اور دیکھنے کے عادی ہوتے گئے اب تو لوگوں کو خبریں ٹی وی چینلز کی بجائے اپنے موبائل فونز اور سوشل میڈیا کے حاصل ہوجاتی ہیں اس چیز کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی بڑے اخبارات کے مالکان نے ٹی وی چینلز بھی شروع کر دئیے ۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور کی ترقی میں اگر ہر چیز آگے بڑھ رہی ہے تو اخبارات کے علاوہ بھی معاشرے پر اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں خاص طور پر نوجوان نسل میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے نوجوانوں میں پڑھنے لکھنے کے شوق میں کمی آئی ہے نوجوان نسل اب اخبارات،رسائل،ڈائجسٹ اور کتابیں پڑھنے کی بجائے اپنی پوری توجہ کمپیوٹر پر مرکوز کردی ہے۔

کمپیوٹر،موبائل اور انٹرنیٹ نے لوگوں میں کتب بینی کا شوق ہی کم نہیں کیا بلکہ لوگوں میں اخبارات پڑھنے کا رحجان بھی بہت کم ہوگیاہے، اس سے ہمارے معاشرے کی ایک اچھی روایت ختم ہوتی جارہی ہے۔ دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی خبروں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ اخبارات تھے، صبح صبح اخبار فروش اخبارات دفاتر اور گھروں میں پہنچاتے تھے اخبارات کے سٹالز پر اخبارات خریدنے والوں کا رش ہوتا تھا۔

ناشتے کی میز پر اخبار کا مطالعہ ضروری سمجھا جاتا تھا ۔گھروں اور دفاتر میں اخبار کی ضرورت ہوتی تھی چائے کی ہر دُکان اور ہوٹل میں اخبار لازمی دستیاب ہوتا تھا جہاں لوگ اخبار کے مطالعے کے ذریعے حالات حاضرہ سے باخبر ہوتے آپس میں تبادلہ خیالات کرتے، اس کے ذریعے لوگوں کے درمیان رابطے اور تعلقات پیدا ہوتے ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی ہوتی اور دوستیاں ہوتی تھیں لیکن اب اکثر لوگ اخبارات بھی انٹرنیٹ پر ہی پڑھ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں جہاں اخبارات کی سرکولیشن میں بہت زیادہ کمی ہوئی وہاں لوگوں کے درمیان گپ شپ اور میل ملاقات کے مواقع بھی کم ہوئے ہیں۔

اب اخبار صرف وہی لوگ خریدتے ہیں جن کی کوئی خبر،تحریر،تصویر یا اشتہار اخبار میں چھپا ہوتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جہاں اخبارات کو ترقی دی وہاں اسی ٹیکنالوجی نے پرنٹ میڈیا کو بہت زیادہ نقصان بھی پہنچایا ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ پرنٹ میڈیا اور اخبارات کے مالکان اور کارکنوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نقصانات کابروقت اندازہ نہیں کیا ۔

اخباری اداروں اور مالکان کو اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت پہلے غور و حوض کرکے کوئی لائحہ عمل یا منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی کیونکہ اخبارات اگر کسی بھی قوم اور ملک کے لیے کئی وجوہات کی وجہ سے اہم ہوتے ہیں تو اخبارات ہمارے حال کی ایک تاریخ بھی ہوتے ہیں جس سے ہمارے علاوہ ہماری مستقبل کی نسل بھی مستفید ہوتی ہے جب کہ اخبارات کیساتھ ہزاروں خاندانوں کا روزگار بھی وابستہ ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جاتا تاکہ مستقبل میں چھوٹے بڑے اخبارات کیساتھ نیوز چینلز کو معاشی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتالیکن افسوس کہ ایسا نہیں کیا گیا اب نئی حکومت نے سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے اپنی پالیسیاں بنائی ہیں جس کے نتیجے میں سرکاری اشتہارات میں کمی کردی ہے جس کیوجہ سے اخباری اداروں،نیوز چینلز کے مالکان سمیت کارکنوں کو معاشی مشکلات کا سامناکرنا پڑ رہاہے یہ صورتحال میڈیا مالکان کے علاوہ کارکنوں کے لیے بڑی تشویشناک ہے اس سے نمٹنے کے لیے حکومت بھرپور توجہ دے کر فوری اقدامات کرے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :