حامد میر، اسد طور اور آزادی اظہار رائے۔۔۔۔

منگل 1 جون 2021

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

تین روز قبل ایک سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اسد طور پر کچھ نامعلوم افراد کی جانب سے تشدد ہوا. پولیس ایف آئی آر ہوئی جس پر تحقیقات جاری ہیں. اسد طور کے حق میں گزشتہ روز سینئر صحافیوں نے احتجاج کیا. دوران احتجاج ایک معروف صحافی نے ملکی اداروں پر بغیر کسی ثبوت کے اور بلاجواز ہرزہ سرائی کی جو کہ انتہائی افسوسناک ہے. مانا کہ آپ بہت بڑے صحافی ہیں.

مانا کہ آپ کے زرائع بہت بڑے ہیں لیکن آپ بغیر ثبوت کسی پر براہ راست کیسے الزامات لگا سکتے ہیں؟ اگر کوئی ثبوت ہیں تو وہ متعلقہ تحقیقاتی اداروں کو دیں تاکہ مزید کارروائی ہو سکے. اگر وہاں آپکی تسلی نہیں ہوتی تو ملکی عدالتیں موجود ہیں. بہت سے دوست آذادی اظہار رائے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ اس کی اصل روح کو نہیں سمجھتے. کسی بھی ملک کا آئین و قانون اپنے تمام شہریوں کو بلاتفریق اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے.

لیکن یہ حق بھی کچھ حدودِ و قیود کے تابع ہے. کچھ پابندیاں ہیں جن کے اندر رہ کر ہم اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں. آذادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی دیگر ادارے یا شخص کی پگڑیاں اچھالنے کا حق قطعاً نہیں دیا جا سکتا. آئین و قانون ہمیں کہتا ہے کہ آپ اس آزادی کو پبلک میں آ کر منافرت، فرقہ واریت، انبیاء کرام، قرآن مجید اور دیگر الہامی کتب کی توہین، بغیر ثبوت کسی ادارے یا شخص کے خلاف ذاتی عناد پر مبنی مہم اور مخصوص ذاتی مقاصد کیلئے قطعاً استعمال نہیں کر سکتے.

پاکستان میں آذادی اظہار رائے کی بات کرتے وقت دیگر ممالک کی بات کی جاتی ہے. ان ممالک میں بھی آزادی اظہار رائے کے بارے مکمل قانون سازی موجود ہے اور تمام شہری اور میڈیا اس قانون کے تابع ہیں. دوسرا یہ کہ ایسی بات کرنے والے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں سوشل میڈیا بارے عوام کو مکمل طور پر ایجوکیٹ کیا گیا ہے کہ اس کا استعمال کب اور کیسے کرنا ہے.

آذادی اظہار رائے کی آڑ میں کسی کو شتر بے مہار آذادی قطعاً نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس طرح تو ریاست کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا. سیاسیات کے طالبعلم کے طور پر معروف فلاسفر ہیگل کی تھیوری میں پڑھ چکا ہوں. ہیگل کہتا ہے "غیر مشروط آذادی معاشرے میں خوف و دہشت پیدا کرتی ہے". ہیگل کی اس تھیوری کی تائید میں بہت سے ریسرچ پیپرز اور آرٹیکل لکھے جا چکے ہیں اور یہ تھیوری آج بھی طلباء کو پڑھائی جا رہی ہے.

کسی کے ہاتھ میں بندوق نما قلم دے کر آپ اسے یہ آزادی نہیں دے سکتے کہ وہ جو چاہے لکھے اور جو چاہے بولے. اس طرح تو ریاستی اداروں اور ریاست کے اندر بسنے والے شہریوں کا جینا حرام ہو جائے گا اور انارکی پھیلنے کا قوی امکان ہے. آذادی کی کچھ حدود و قیود ہیں، ہر شہری جس کے تابع ہے. کسی کی عزت پر انگلی اٹھانا بہت آسان ہے لیکن جب انسان کو خود اس ساری صورتحال سے گزرنا پڑے تو پھر اسے اندازہ ہوتا ہے.
آئین و قانون کے تابع رہ کر مفاد عامہ کیلئے بولنا اور لکھنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے جس سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا البتہ میری آزادی رائے وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں دوسرے شہریوں اور ملکی اداروں کے حقوق شروع ہوتے ہیں.

بصورت دیگر مادر پدر آزاد معاشرہ ذیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا. یہی بات نہ صرف ماہرین کہتے ہیں بلکہ عدلیہ بھی اپنے کئی فیصلوں میں واضح طور پر کہہ چکی ہے. اصول فطرت ہے کہ ہم سب کی آزادی ایک دوسرے کے حقوق کیساتھ جڑی ہوئی ہے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :