بیداری کا ایک لمحہ

ہفتہ 29 جون 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

حضرت واصف علی واصف  سے کسی نے پوچھا اللہ کا ولی کون ہے؟ جواب ملا جس کے پاس بیٹھنے سے تمہیں اللہ یاد آنے لگے،وہی اللہ کا ولی ہے۔ یہ تعریف بظاہر بہت آسان ہے، مگر اس کا عملی زندگی میں داخل ہوجانا یقینا معجزوں سے کم نہیں ہوتا۔ آپ دنیا کی تعریفیں پڑھیں تو وہ ایسی کیفیات تک پہنچنے کے لیے آپ کو ماسلو کے زندگی کے پیمانوں کا سفر نیچے سے شروع کرنا پڑتا ہے۔

آپ کو سب سے پہلے اپنے جسم کی ضروریات جیسے کھانا،پینا پورا کرنا پڑتا ہے، پھر اپنا تحفظ آتا ہے، پھر رشتے پیار، پھر اپنا خود اعتمادی اور آخر میں اپنی پہچان کی منزل آتی ہے،جسے Self-Actualization یا ں کہتے ہیں، اور جس نے یہ منزل پا لی وہی حقیقت میں اپنا اس دنیا میں آنے کا مقصد پہچان سکتا ہے، رب کو پہچان سکتا ہے، اپنا آپ جان سکتا ہے۔

(جاری ہے)

راقم القلم کو ذاتی طور پررب کی راہ میں نکلے کسی ایک بڑے انسان کی تاریخ میں ماسلو کے زندگی کے پیمانوں کا تسلسل نظر نہیں آیا۔

سوائے گوتم بدھ کہ جس نے بادشاہوں اور شہناشاہوں کی زندگی کو چھوڑ کر جنگلوں کی راہ لے لی اور اپنی پہچان سے رب کی پہچان کے سفر پر نکل گیا۔ میں نے تو جس انسان کو رب کے عشق میں فانی پایا ،اس کی شروعات ہی ماسلو کا آخری پیمانی تھیں، یا پھر وہ شروع پہلے دوسری منزل سے ہوا اور بیچ میں ایسا گم ہوا کہ اس کو خودی کی منزل مل گئی۔ مطلب اس نے اپنا آپ پالیا اور اسی جہد میں وہ اپنے رب کے قریب ہوگیا۔

مجاز سے حقیقی عشق کے سفر کی داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ محبت رشتے ماسلو کے پیمانوں میں تیسرے نمبر پر آتے ہیں،اور انسان اس کے چکر میں ہی ،آخر سے اوپر منزل تک نکل گئے؟ حضرت امام مالک  فرماتے ہیں کہ انسان کی دو پیدائشیں ہوتی ہیں ایک جب وہ اس دنیا میں آتا ہے اور دوسری جب اس کی اپنے آپ سے ملاقات ہوتی ہے، اور اس کے لیے اسے لمبا طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے اور یہ سفر اپنے باہر سے اندر کا طویل سفر ہوتا ہے۔

آپ نے کبھی کسی گھوڑ سوار کو گھوڑے کو لات مارتے دیکھا ہے؟ وہ بیرونی دنیا کی کیفیت اپنے اوپر طاری کرتا ہے اور پھر اس ساری کیفیت کی جان اپنے اندر ڈال کر گھوڑے کو تیز بھاگنے پر مجبو ر کرتا ہے،انسان کی خودی کی بیداری کی منزل بھی بس اتنی ہی ہے، وہ تمام عمر زندگی میں کسی ایسے موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ وہ باہر کی دنیا اپنے اندر داخل کر لے اور اس ساری کیفیت کی بیرونی جان اپنے اندر ڈال دے اور زندگی کی حقیقت پہچان لے۔

ہر انسان کی زندگی میں ایسے ہزاروں مواقع او ر کیفیات آتی ہیں،جب وہ اپنی اصل منزل پاسکتا ہے، مگر کیونکہ وہ ماسلو کے پیمانوں کی پہلی دوسری منزل میں ہی کہیں بھٹکا ہوتا ہے تو وہ ان کی تپش اپنے اندر داخل کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ تاریخ میں ایک واقعہ ہے کہ ایک بہت بڑے استاد کے مدرسے میں کتابیں لکھی جاتی تھیں،وہ استاد ان کتابوں پر روزانہ درس دیا کرتے تھے،ایک دن ایک فقیر آیا اور پوچھا کیا پڑھا رہے ہیں؟ استاد نے جواب دیا کہ بابا جی یہ آپ کے کام کی باتیں نہیں ہیں۔

فقیر نے وہ تمام کتابیں اٹھا کر تالاب میں گرا دیں، استاد نے کہا بابا جی آپ نے تو میری زندگی بھر کی کمائی غارت کردی۔یہ سننا تھا کہ فقیر نے تالاب میں ہاتھ ڈال کر کتابیں نکالنا شروع کیں اور وہ بالکل خشک اور خوشبو سے مہکتی باہر آنے لگیں۔ استاد نے کہا باباجی یہ کیا ہے؟ بابا جی کہنے لگے یہ تمہارے کام کی باتیں نہیں ہیں۔ تمہارا کام صرف دنیا کا علم پڑھانا ہے۔

اسی ملاقات نے انہیں حضرت جلال الدین رومی  بنا دیا۔ استاد کی رب سے لو لگی تو وہ فقیر کو ڈھونڈنے نکل گئے،اس میں ان کو تین سال لگ گئے۔جب فقیر ملا تو آپ  ان کے قدموں میں گر گئے کہ مجھے آپ کی تلاش میں تین سال لگ گئے۔ فقیر کہنے لگا بیٹا تجھے تین سال لگے ہیں ، مجھے اس تلاش میں تیس سال لگ گئے۔ وارث شاہ  سے لے کر آپ حضرت فرید الدین عطار  تک کسی ایک بزرگ کی خودشناسی کی منزل کی تاریخ پڑھ لیں ،سب بیداری کے ایک لمحے کی کہانی ہے اور اس لمحے کے لیے وہ سب کسی اللہ کے ولی کے محتاج رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ہدایت رب کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے اور اس کا نزول اسی پر ہوتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔ میں نے اپنے بہترین دوست قاسم علی شاہ کا مشہور کتاب magic of gratitude کا ترجمہ پڑھا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ خودی کی منزل میں ماسلو کے پیمانوں میں بہت کمی موجود ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی اظہار تشکر یعنی رب کے شکر کی ہے۔ زندگی کی منازل کی معراج پانے کے لیے انسان کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر شکر کی بیداری لانا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو آپ کو راہوں میں بھٹکنے سے روکتی ہے اور آپ بہت جلد خودی کی بیداری کی منزل پالیتے ہیں۔

میں اگر اپنی زندگی کا خلاصہ کروں تو شاید ہزاروں ایسے لمحے آئے جو میرے لیے میرے رب سے ملاقات کے تھے، مگر میں نے انہیں ناشکری میں ،مایوسی میں گنوا دیا۔ میں عمر بھر روٹی ، کپڑے، گھر کو بہتر سے بہتر بنانے کی جہد میں رہا ،اور تشکر کے وہ خلوت کے لمحات جو مجھے اور رب کو قریب لاتے تھے، میں نے ان میں بھی دنیا کی ہی فکر جاری رکھی، بالکل حضرت واصف علی واصف  کے زندگی کے واقعے کی طرح کہ جب انہوں نے حضرت داتا علی ہجویری  کے عرس پر جاکر پوچھا کہ آج تو بڑا میلہ لگا ہوا ہے۔

آواز آئی کہ وہ سارے بھاٹی کی مٹھائی کھا کر واپس چلے، میرے پاس تو کوئی نہیں آیا۔یہ سب تاریک کی راہو ں میں بھٹکے ہیں،ہم اللہ والے کے پاس اپنا کام کرانے جاتے ہیں،ہمیں رب نہیں چاہیے ہوتا۔ہمارارب کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ہمارا تو بس کوئی کام پھنسا ہوتا ہے اور ہمیں وہ نکلوانا ہوتا ہے۔ شاید میرا بھی خلوت میں رب سے رشتہ تاریک کی راہوں میں بھٹکا ہی رہا۔

بطور ڈاکٹر میرے ارد گرد ہزاروں ایسے لمحات آئے، جنہوں نے مجھے خودشناسی کی آخری منزل تک رسائی دی، مگر میری چھلانگ ماسلو کے پہلے ایک دو پیمانوں تک ہی رہی ،میں انہیں ہی بہتر بناتا رہا۔ پھر میری ملاقات ایک روز رب نے اقراء سے کرائی یا پھر اس لمحے سے جس کا بیرونی منظر ،اندر داخل ہوکر ٹھہرے سمندر میں طوفان برپا کرنا چاہتا تھا۔
 یہ وہ لمحہ تھا جس کی بیرونی طاقت نے زندگی میں سب سے زیادہ میرے اندر کو گھوڑے کی طرح کی بجلی جیسی حرکت دینے کی کوشش کی۔

مجھے احساس ہوا کہ ہم لاکھ سجدوں میں گرے رہیں , تب بھی رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔کمرے میں پرائیوٹ میڈیکل کالج کی تین ہاؤس آفیسر ڈاکٹر موجود تھیں۔ میں اینڈو سکوپی کی لسٹ ختم کرنے میں لگا تھا کہ اقراء اینڈوسکوپی کے لیے لائی گئی۔ یہ پاکستان کی ٹاپ میڈیکل یونیورسٹی کنگ ایڈورڈ میں دوسرے سال کی طالبہ تھی کہ جب اس کا بچپن کا دمہ بگڑنے لگا ، اس کو ڈینگی نے بھی آلیا اور اس کی سانس کی موروثی بیماری بڑھتی چلی گئی۔

پڑھائی دو تین سال پہلے بیماری کی وجہ سے چھوڑ دی۔یہ بیٹھی تو سانس لینا مشکل تھا ، مگر مسلسل بولے چلی جارہی تھی۔ میں اس کی اینڈوسکوپی کرنے لگا تو میری نظریں سکرین سے زیادہ سانس بتانے والی مشین پر تھیں۔ میرے دونوں طرف دو الگ جہان تھے۔ ایک طرف تین بچیاں جو شادی کے پلان بنارہی تھیں , آگے پڑھنے کی باتیں کر رہی تھیں اور چہک رہی تھیں،اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں شاید پڑھائی میں زیادہ قابل بچی جو سانس کی ایک ایک بوند کے لیے بار بار سوال کیے جارہی تھی۔

اقراء چلی گئی تو میں کافی دیر رب کی نعمتوں پر محو حیرت یہ سوچتا رہا کہ ہم جن چیزوں کو granted for لے لیتے ،ان کی اصل حقیقت کیا ہے؟ رب چاہے تو دنیا بدل دے اور نہ چاہے تو ہمیں سانسوں کا بھی محتاج کردے۔ سیاہ بادلوں کے پردوں میں حالت سکوت میں چھپی حقیقت ِمنتظر کا منظر ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ ہم تو ایک ایک سانس کے لیے اپنے رب کے محتاج ہیں۔ صنم آشنا دل کو جو منظر نماز کے سجدے نہ دکھا سکے،وہ اس بچی کی اکھڑ تی سانسوں نے دکھا دیا۔

مجھے حضرت واصف علی واصف  کی ولی کی تعریف یاد آنے لگی کہ جس کے پاس بیٹھنے سے تمہیں اللہ یاد آنے لگے،وہی اللہ کا ولی ہے۔ ہم تمام عمر ماسلو کے پیمانوں میں بے معنی زندگی کے پیچھے بھاگتے رہتے کہ یہ حاصل کر لیں گے تو رب سے لو لگا لیں گے، یہ ہوگا تو اتنی نیاز دیں گے، اس مزار پر چادر چڑھائیں گے۔ ریٹائیرمنٹ کے بعد حج ،عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے، بس ایک بار نوکری اور بیٹیوں کی شادی سے فارغ ہوجاؤں تو آخرت کی تیاری کریں گے۔

مگر قدرت کی تعریف میں خودشناسی میں ڈوب کر رب کو پا لینے کی منزل تو بیداری کے ایک لمحے کی محتاج ہے۔ پھر یہ اتنے طویل سفر کے مسافر تاریک راہوں میں کیوں بھٹک جاتے ہیں؟ ہم صنم آشناء دل سے سجدوں میں جس رب کوپانے کی جہد میں رہتے ہیں،اس کی تلاش تو بس خودشناسی اور بیداری کے ایک لمحے کی محتاج ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :