روزی کا اڈا

جمعرات 5 ستمبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

یہ چند حقیقی کرداروں کے گرد گھومتی سچی کہانی ہے اور ان کرداروں کے ساتھ راقم الحروف کا بہت گہرا تعلق رہا ہے۔کئی بار زندگی کی سچائی کا یہ رخ قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ، مگر شائد کسی چیز کا انتظا ر تھا۔وہ لڑکا شہر کے سب سے پرانے حجام یعنی باربر کے پاس کرتا تھا۔ دن بدن زمانہ بدل رہا تھا،اور حجام جدت پسندی سے عاری تھا،وہی آرام آرام سے بال کاٹ دینا، شیو بنا دینا۔

فیس مساج، ٹرمننگ، فیشیل، باڈی مساج ، مینی کیور وغیرہ وغیرہ یہ چیزیں اسے کہاں آتی تھیں، مگر یہ لڑکا ان سب میں بہت تیز تھا۔ اس لڑکے نے اس دکان سے اپنے ذاتی گاہک بنائے اور جب اچھی خاصی جان پہچان ہوگئی تو قرضہ اٹھا کر ،اسی علاقے میں جدت پسند بہترین دکان کھولی، یہ دکان کی آڑ میں ایک سستا سیلون تھا،جس میں ہر وقت جوان لڑکوں کا رش رہنے لگا، کام جب بہت زیادہ چل نکلا تو اس لڑکے نے اس دکان کے عقب میں ایک چھوٹی دکان بھی،اپنی دکان کے ساتھ ملا لی اور اس نے علاقے میں جدت کی بنیاد ڈالی تھی،یوں پورے شہر میں اس کا نام بن گیا اور اب اس کی دکان پر کئی ملازم کام کرتے تھے ، جن میں سے ایک گندمی رنگ کا لڑکا بھی تھا، جو دیکھنے میں ہی بہت تیز تھا۔

(جاری ہے)

وہ شائد جانتا تھا کہ کسی کے پاس کام کرنے والے ،اس شخص کی آج اس ترقی کا راز کیا ہے۔ راقم الحروف نے اپنی آنکھوں سے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب ایک انتہائی اہم شخصیت کے لیے ، میرے شہرکے ہوائی اڈے پر سپیشل جہاز اترا کرتا تھا،اور وہ صرف اس حجام کو دارلخلافہ لے جانے آیا کرتا تھا۔یہ حجام اپنے مالک کی قدامت پسندی کا فائدہ اٹھا کر آج بہت ترقی کرگیا تھا،اس کے پاس اپنی بہترین گاڑیاں تھیں، کئی ملازم تھے ،اور اس کی کرایے کی لی دکانوں کا بھی وہ اب مالک تھا۔

یہ سب اس نے پانچ سے چھ سال کے عرصے میں حاصل کیا تھا، اور اتنے کم عرصے میں اتنا عروج پاکر اس کا دماغ ٹھکانے نہیں رہا تھا۔ اسی کے ناک کے نیچے گندمی رنگت والا ،ملازم ، حجام کے طریقے کی نقل کرتا ،اپنی خوش اخلاقی اور بہترین کام کی وجہ سے اپنے گاہک بنانے لگا۔ شہر کے سب سے بڑے سیلون کے مالک کا اب کام سے دل اکتانے لگا۔ اس نے کثرت مے نوشی شروع کردی اور اپنی دکان میں موجود عقبی کمرے میں ہر وقت نشے میں دھت رہنے لگا۔

سیانے کہتے ہیں ،کہ جب مرد کی جیب میں زیادہ پیسہ آجائے اور اس کا پیٹ بھر کر پیسہ بچنے بھی لگے تو اس کی اگلی منزل عورت ہوتی ہے اور وہ عورت یقینا اس کی گھر والی نہیں ہوتی۔ اس حجام کی اگلی منزل بھی یہی تھی، اس دکان کے اسی عقبی کمرے میں جو دکان کی ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا دن رات عیاشی کی محفلیں سجائی جانے لگیں۔ گندمی رنگت والا ملازم یہ سب دیکھتا رہا ،مگر وہ کبھی بھی اپنے مالک کی ان حرکتوں کا حصہ نہیں بنا ، پردہ پوشیوں ، حتی کہ انہی میں سے ایک خاتون سے شادی تک وہ مالک کے ساتھ پوری دیانت سے کام کرتا رہا۔

پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہ شخص کہ جس کے لیے خاص طیارے بھیجے جاتے تھے، سڑکوں پر آگیا۔ اس کی سب سے پہلے گاڑیاں بکتی چلی گئیں، پھر گھر بک گیا اور آخر میں دکان بھی بک گئی۔ اس دکان کے بارے میں بس اتنا معلوم ہوا کہ وہ اسی نام سے اس حجام کے کسی اور شاگر نے لے لی اور اس نے اس گندمی رنگت والے لڑکے کو بھی دکان سے بے دخل کردیا۔
کئی سال بعد، راقم الحروف، اپنے شہر کے مہنگے ترین علاقے کے سب سے مشہور سیلون میں داخل ہوا۔

اس سیلون کی شہرت ،مجھے بہاولپور میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران یہاں دوستوں کے ساتھ کھینچ کر لائی تھی۔ یہ سیلون کسی طرح بھی یورپ کے ایکزیکٹیو کلاس بیوٹی سیلون سے کم نہیں تھا۔ یہاں کا مالک اور شہر کا مشہور ہیئر ڈریسر اب ایک برانڈبن چکا تھا، اور یہ شخص بہترین حجامت کے لیے پورے شہر میں اپنی مثال آپ ہی تھا۔ یہ سیلون ایک مین ہال نما کمرہ تھا،جس میں تین عقبی سٹائلش کمرے تھے، جن میں سے ایک میں صرف اس دکان کا مالک مہنگے داموں آپ کا کام کرتا تھا،جب کے ایک کمرہ فیس مساج وغیرہ کے لیے مختص تھا اور ہال میں اس کے شاگر د کام کرتے تھے۔

راقم جب بال کٹوانے کے لیے کرسی پر بیٹھا، نظریں اٹھائیں ،تو سامنے وہی گندمی رنگت والا لڑکا آج ایک مشہور ہئیر ڈیزائنر سیلیبریٹی کے روپ میں کھڑا تھا۔یہ شخص اب ٹین ایجر نہیں تھا،اس کی مردانہ وجاہت ،اور جسم اس بات کا ثبوت تھے کہ آپ کسی ایسے شخص کے سامنے سر جھکائے بیٹھے ہیں ، جو واقعی اپنے کام میں مہارت رکھتا ہے، وہ لڑکا جس میں منہ میں زبان نہیں ہوتی تھی ، آپ کو بہترین انگلش میں مخاطب کرکے آپ سے بات کررہا تھا۔

یہ گندمی رنگت والا لڑکا راقم القلم کو پہچان چکا تھا، اور پرانا گاہک ہونے کے ناطے اسی ملاقات میں دوستی بھی گہری ہوگئی۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے اور شہر لوٹنے کے بعد راقم الحروف متواتر اس سیلون پر جاتا رہا۔یہ ذاتی مشاہدہ پر مبنی چند حیران کن اقدامات تھے، جنہوں نے اس گندمی رنگت والے لڑکے کو شہر کے بہترین سیلون کا مالک بنا دیا تھا۔

اس سیلون کے سامنے بہت بڑی جامع مسجد موجود تھی اور اس کے ساتھ بہت بڑا مدرسہ بھی موجود تھی۔اس سیلون میں اس مدرسے کے تمام طالب علموں کی حجامت اور شیو مفت کی جاتی ۔ اس احسان کی عقیدت کے طور پر روزانہ ،اس سیلون میں مدرسے کے بچے صبح نو بجے سے گیارہ بجے تک تلاوت کرتے اور اس کے بعد یہ سیلون گاہکوں کے لیے کھولا جاتا ، اسی سیلون کی ایک عقبی دکان میں فجر کے علاوہ باقی تمام نمازوں کے اوقات میں جماعت کرائی جاتی اور نماز کی پابندی سیلون کے مالک نے ہر کاریگر اور ملازم پر فرض کر رکھی تھی۔

رمضان میں اس سیلون پر شام کے وقت کسی بھی مسجد کی طرح افطاری کا احتمام کیا جاتا اور ہر روزے دار کو کھانا تک سیلون کا مالک اپنی جیب سے کھلاتا ۔راقم الحروف نے ایک دن اس گندمی رنگت والے دبلے پتلے ٹین ایجر سے یہاں تک کے سفر کی داستان پوچھی تو یاری دوستی میں سب بتانے لگا۔جو کچھ اس کی زبان سے نکلا وہ آج ہر اس شخص کے لیے نصیحت کا درجہ رکھتا ہے جو اپنی روزی روٹی کے اڈے کی قدر نہیں کرتا۔

وہ بولا ڈاکٹر صاحب ، آپ نے میرے حالات دیکھے ہیں، میں نے پرانے سیلون پر بہت محنت سے کام کیا،مگر میرے مالک کے حالات کا آپ کو پتہ ہے،اسے خدا نے کیا کچھ نہیں دیا، مگر اس نے روزی کے اڈے کی قدر نہیں کی،اور خدا نے میری آنکھوں کے سامنے اس سے سب چھین لیا، صاحب میں نے جو اس روزی کے اڈے پر اپنی آنکھوں سے دیکھا،اس کے بعد اس مالک کو سڑکوں پر آتا دیکھ کر عبرت پکڑ لی ۔

میں نے ادھار اٹھا کر اسی سیلون کی ایک دکان کرائے پر لی ، اس مدرسے میں ایک دوست روزانہ میری دکان میں تلاوت کرتا ، میں یہاں پانچ وقت نماز پڑھتا اور دیکھتے دیکھتے خدا نے مجھے اتنی ترقی دی کہ میں نے اس عقبی دکان کے ارد گرد موجود تمام دکانیں خرید لیں، آج یہ سیلون آپ کے سامنے ہے۔ لوگ میرے پیشے کو حرام اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے ہیں، مگر اس پیشے سے میں نے ماں باپ کو حج کرایا،اپنی تمام بہنوں کی شادی کی اور آج اس دکان پر میں پانچ کے پانچ بھائی ساتھ کام کرتے ہیں اور د و بھائیوں کو میں نے مختلف شہروں میں برانچیں کھول کے دے رکھی ہیں۔

میں نے کچھ بھی نہیں کیا، میں نے صرف روزی کے اڈے کی قدر کی، ایک مدرسے کے دوست کی تلاوت ، روزانہ صبح قرآن خوانی میں تبدیل ہوگئی، مجھ اکیلے کی نماز اور روزہ ،جماعت کی شکل اختیار کرگیا۔اس میں کوئی جادو نہیں تھا۔ جادو تو اللہ نے خود کردیا، اس نے بس مجھے روزی کا اڈا دیا اور میں نے اس اڈے میں اس کے دینے والے کا ذکر عام کردیا۔ سر، جہاں سے آپ کو رزق ملتا ہو،اس کام کو دنیا جو بھی نام دے،آپ اس جگہ پر حلال روایات ڈالیں گے،تو سب حلال ہوجائے گا اور اگر آپ میرے مالک والی راہ پر چل پڑے تو کسی دن کسی سڑک پر ادھ ننگے پڑے ملیں گے اور کوئی آپ کے منہ میں پانی بھی نہیں ڈالے گا۔

یہ بات دل ماننے کو تیار نہیں تھا مگرایوانوں سے لے کر موچی کی چٹائی تک،روزی کے اڈے کی توقیر انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے،یہ سبق مجھے آج ایک حجام نے پڑھایا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :