کرونا وائرس کی اصل حقیقت

ہفتہ 8 فروری 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

 انسانی جبلت میں سنسنی ہے اور کوئی بھی ایسی خبر جو اپنے اندر چونکا دینے کی صلاحیت رکھتی ہو وہ آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ یوٹیوب کے اکثر چینل اسی سنسنی پر کام کرتے ہیں اور کلک بیٹ نامی ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں،وڈیو کے اوپر انتہائی سنسنی والی سرخی لگائی جاتی ہے اور جب آپ کھول کر پوری وڈیو دیکھتے ہیں تو اندر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ کرونا وائرس نام کا وائرس بھی اسی سنسنی کی طرح عام ہوا۔

یہ پوری دنیا کے لیے یقینا ہائی الرٹ تھا، مگر اتنا نہیں جتنا میں نے پاکستانیوں کو اس لیے پریشان دیکھا۔ گزشتہ ہفتے میرے جس مریض یا قریبی جاننے والے کو نزلہ یا زکام ہوا،اس نے پریشانی میں مجھے ضرور فون کیا کہ مجھے کرونا وائرس تو نہیں ہوگیا۔ پھر جاکر اس کا باقائدہ ٹیسٹ بھی کروا کر آیا اور مجھے رپورٹ بھیجی۔

(جاری ہے)


 قارئین یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کرونا وائرس کا پاکستان میں کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا،ایسی کوئی سہولت موجود ہی نہیں ،مگر ہمارے ہاں یہ ٹیسٹ بھی نیم حکم چند لیبارٹریوں نے ایجاد کرکے کردیا۔

کرونا وائرس چین کے شہر وہان میں پھیلا، یہ وہاں کی گوشت کی منڈی سے پھیلا اور پھر پھیلتا چلا گیا۔اب تک سو سے اوپر ہلاکتیں اس شہر میں ہوچکی ہیں اور یوں پورے چین میں ریڈ الرٹ ہے،ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے بھی ایسا ہی الرٹ جاری کر رکھا ہے اور یقینا یہ دنیا میں پھیلنے کی صورت میں انتہائی مہلک ہے۔
 یہ وائرس نیا ہے، مگر یہ نیا جین کوڈ لے کر آیا ، یہ دنیا میں پہلے سارس اور مڈل ایسٹ ریسپائیریٹری سنڈروم کے نام سے موجود تھا،اس سے ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئی تھیں،مگر ان کا ہجم وہان جیسا نہیں تھا۔

وہان میں یہ یقینا آفت بن کر نازل ہوا ہے ۔ اس کا نام اسی وجہ سے آنے والے وقتوں میں وہان کرونا وائرس رکھا جائے گا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی وائرس کے خلاف ویکسین بنانی ہوتی تھی تو اس کو ٹرانسپورٹ کرنا پڑتا تھا،اب یہ کام جین کوڈ پر ہوتا ہے جو وائرس کے ڈی این اے یا آر این اے پر درج ہوتا ہے۔ چین نے اس وائرس کا کوڈ حاصل کرلیا ،مگر اس کی ویکسین بنانے کے لیے چین کو چھ ماہ سے سال کا عرصہ درکار تھا۔

چین وہان میں ہزار بیڈز پر مشتمل کرونا وائرس ہسپتال تو پانچ دن میں بنانے میں کامیاب ہوگیا،مگر یہاں اس کو امریکہ کی مدد کی ضرورت پڑ گئی۔
اس ضمن میں امریکی ریسرچ ادارے نے تین دن میں اس وائرس کے کوڈ کے خلاف ویکسین بنانے کا اعلان کیا ہے،مگر اس کو انسانوں کے لیے قابلِ عمل لاتے تین سے چھ ماہ لگ سکتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ ویکسین ایڈز کی ویکسین کی طرح فیل ہوجائے۔

مطلب نئی جین کوڈ کے خلاف قوتِ مدافیت پیدا کرنے کے لیے ویکسین بنانے کی کوشش اگر ناکام ہوجائے تو ایسے میں بہت بڑی آبادی اس وائرس سے متاثر ہوسکتی ہے۔یہ وائرس بنیادی طور پر انسان کے سانس کو منجمد کردیتا ہے۔پہلے عام نزلہ زکام ،خشک کھانسی ہوتی ہے اور پھر پھیپھڑے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں اور انسان وہیں سانس بند ہونے سے ساکت ہوکر گرنے لگتا ہے۔

ایسا ہی وہان کی سڑکوں پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا، جب لوگ سڑکوں پر گرتے دکھائی دیے۔ راقم القلم کو چین کے شہر تیانجن میں جگر کی پیوندکاری کے یونٹ میں کچھ عرصہ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس شہر کی ملحقہ گوشت مارکیٹ وہان جیسی تھی۔ یہ گوشت مارکیٹ دیکھنے اور اس میں جانے کے لیے میرے جیسے انسان کے پاس جو چیز سب سے زیادہ ضروری تھی،وہ حونصلہ تھا۔

یہاں کتے،سانپ، بلیوں، مگر مچھوں سمیت سب کا گوشت ملتا تھا ۔یہ زندہ ہوتے،آپ کے سامنے ان کے سر پر کرنٹ والا راڈ مارا جاتا اور پھر مرضی کے حصے کا گوشت بنا کردیا جاتا۔ یہاں بڑے سانپ ایناکونڈا تک کا گوشت دستیاب تھا۔ یہ چمکادڑ ،الوؤں سمیت ہر طرح کے جانوروں کی بہت بڑی منڈی تھی۔ اسی طرح ہر قسم کی سمندری حشرات بھی مہیا تھیں۔ ان جانوروں میں اکثریت حرام جانوروں کی تھی۔

 راقم القلم آدھ گھنٹے اس منڈی میں رہا اور جب شدید تعفن سے جان نکلنے لگی تو وہاں سے نکل آیا اور کمرے میں آکر سب سے پہلے اپنے مسلمان ہونے اور پھر پاکستانی ہونے پر رب کا شکر ادا کیا، پاکستانی ہونے پر اس لیے کہ آدھ گھنٹہ اس تعفن میں گزارنے کے لیے آپ کا پاکستانی ہونا بہت ضروری تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کرونا وائرس ان حرام جانوروں کے گوشت کے استعمال سے پھیلا؟ تو اس کا جواب بہت واضح ہے کہ یقینا یہ ان کی وجہ سے پھیلا ،مگر ان میں سے کونسا جانور،اس پر ابھی تحقیق کی جارہی ہے۔

اس پر دو طرح کی قیاس آرائیاں ہیں کہ یا تو یہ وائرس وہان کی اس منڈی میں موجود سمندری مخلوق سے پھیلا یا پھر خاص کر چمکادڑ سے پھیلا۔ چمکادڑ کا استعمال چین کے اسی شہر میں سوپ میں کیا جاتا ہے،گو یہ کوئی بہت مقبول خوراک نہیں ہے،لیکن اگر یہ اس سوپ سے پھیلا تو مرنے والے زیادہ تر لوگ اس منڈی میں کام کرنے والے یا ان کے عزیز و اقارب کیوں تھے؟ مطلب یہ زندہ حالت میں موجود چمکادڑ سے پھیلا یا اس کے کچے گوشت سے؟ اس سب پر تحقیق کی جارہی ہے،کیونکہ چمکادڑ وہ واحد جاندار ہے ،جو اپنے اندر سب سے زیادہ وائرس اور بیکٹیریا پالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس سب سے بڑھ کر ایک اورسنسنی بھی عام ہے کہ یہ وائرس ایک بیالوجیکل وار فیئر ہے،ایسی رائے فکشن پر مبنی ہے اور یہ ہالی وڈ کی2011 میں ریلیز کی گئی مشہور فلم contagion سے متاثر ہے۔
 اس فلم میں ایسے ہی وائرس کا ذکر ہے،جس کے پھیلنے کا ذریعہ چمکادڑ ہے ۔ بیالوجیکل وار فیئر جیسے کے اینتھراکس دنیا میں دشمن ملک جنگوں میں استعمال کرتے ہیں،مگر ان کا استعمال اب کی گلوبل ویلیج دنیا میں ناممکن ہے کیونکہ ایسا وائرس اپنی حد مقرر نہیں رکھتا اور یہ پھیل جاتا ہے۔

چین کے شہر وہان سے پاکستان میں یہ وائرس بڑی آسانی سے آسکتا ہے کیونکہ اسی شہر کی یونیورسٹیوں میں کئی پاکستانی سٹوڈنٹس پڑھتے ہیں اور کئی چینی بھی پاکستان میں بہت سے منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ یہ وائرس تائیوان، بینکاک، تھائی لینڈ،انڈونیشیا میں اسی وبا کے بعد رپورٹ بھی ہوچکا ہے ،سو اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں یہ وائرس نہ صرف موجود ہوسکتا ہے،بلکہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، مگر اس کی سنسنی یوٹیوب پر پھیلی سنسنی کے برعکس ہے۔

 
فی الحال یہ وہان میں Epidemic ہے،یعنی وہیں تک محدود ہے ،اکا دکا کیسز جو دیگر ملکوں میں ہیں وہ بہت بڑا خطرہ نہیں،مگر اگر یہ وائرس پھیلا تو یقینا یہ بہت بڑا خطرہ ہوگا۔اس وائرس سے بچنے کا واحد حل احتیاط ہے،جس میں سب سے بہترین ہمارا وضو کرنے کا طریقہ اور صفائی ہے، اگر ناک منہ میں پانی ڈال کر اچھی طرح دھویا جائے تو یہ وائرس نہیں پھیلتا،نہ ہی نقصان پہنچاتا ہے ۔

گونج کے ذریعے پاکستان میں موجود ایسی لیبارٹریوں کو بھی راقم القلم ایک پیغام دینا چاہتا ہے کہ پیسے کی خاطر حرام گوشت سے پھیلے والے وائرس کو مثبت یا منفی دکھانے سے ان کی کمائی حرام ہوجاتی ہے،لحاظہ جس وائرس کی تشخیص کے سنٹر پوری دنیا میں محدود ہیں اور پاکستان میں ایسا کوئی سنٹر یا سہولت کسی سطح پر ہے ہی نہیں،وہ ایسے ٹیسٹ کرنے سے پرہیز کریں اور عوام الناس بھی یوٹیوب کی سنسنی کو اپنے اوپر طاری کرنے سے گریز کریں،کیونکہ پاکستان میں فی الحال نہ چمکادڑ کا سوپ پلایا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی کیس رپورٹ ہوا ہے اور جو ہوا ہے وہ بھی ایسی ہی کسی لیبارٹری کی رپورٹ ہے،حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ہمارے ملک کے لیے کرونا وائرس ،ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس ہیں، ہمیں ان کے خاتمے کی طرف دھیان دینا ہے اور یہ کرونا سے کئی گنا زیادہ جانیں نگل چکے ہیں۔لحاظہ سرکار، میڈیا اور یوٹیوب چینل اس پر زیادہ توجہ دیں۔ کرونا وائرس وہان شہر میں ہے اور چینیوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اس کو وہیں روک سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :