میرا جسم میری مرضی کی اصل حقیقت

پیر 9 مارچ 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

عورت کے اندر سے وفا نکال دیجیے اور مرد کے اندر سے غیرت نکال دیجیے اور پھر ان دونوں کو پھونک مار کر اڑا دیجیے،معاشرے کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ الفاظ لکھنے والا پاکستان کا سب سے مہنگا ترین لکھاری، ایک نعرے کے غلط استعمال پر تنقید کرتے کرتے ایک خاص گروہ کے ہاتھوں ایک لائیو شو میں جذمات کے ہاتھوں یرغمال ہوگیا۔ میرا جسم میری مرضی۔

راقم القلم نے اس پر ایک شو کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا،وجہ یہ تھی کہ ایک خاتون نے اس میں لکھاری کی حمایت کرڈالی،اس لکھاری کی کہ جس پر شدید تنقید کی جارہی تھی کہ انہوں نے لائیو شو میں ایک خاتون کے لیے سخت ترین الفاظ استعمال کیے ۔ یہ سب قابلِ مذمت تھا، مگر جس طرح اس پر ریکشن آیا،وہ حیران کن تھا۔ خلیل الرحمان قمر پاکستان کے مشہور لکھاری ہے اور ان کی وجہ شہرت ان کا حالیہ ڈرامہ میرے پاس تم ہو، ہے جس نے کامیابیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔

(جاری ہے)

اس ڈرامے میں ایک عورت کی بے وفائی اور مرد کی وفا کو امر کردیا گیا،یہ ایک اچھوتا موضوع تھا،جس کو عوام میں بہت زیادہ پذیرائی ملی اور یوں خلیل الرحمان قمر پورے معاشرے میں مردوں کے وکیل بن گئے۔ مردوں کے معاشرے میں مردوں کے وکیل کو عورتوں سے بھی بے حد محبت ملنا،اس کے بعد شاید کامیابی ختم ہوجاتی ہے اور یہی خلیل صاحب کے ساتھ ہوا۔ ایک شو میں وہ ایک ایسی خاتون کے تھوڑا سا اکسانے پر جذبات میں ایسے الفاظ استعمال کربیٹھے،جو ایک ایسے نعرے کو اس ایکسٹریم پر استعمال کررہی تھیں،جس کا تصور کرنا ہی ہمارے معاشرے میں گناہ سمجھا جاتا ہے۔

عورت کا جسم اور مرضی کسی اور کی؟ سو میرا جسم ،میری مرضی۔ یہ کس قدر دلکش ہے کہ اگر اسی معاشرے میں اس کی تشریح کسی خاص گروہ کے عورت مارچ سے الگ کی جائے۔ زینب جیسی ریپ ہوتی بچیوں کے لیے کی جائے، نوکری کے لیے اپنا سب کچھ بیچتی کسی خاتون کے لیے کی جائے، آٹھ نو سال کی عمر میں کسی ساٹھ ستر سال کے ساتھ نکاح میں بیچی جانے والی کسی بچی کے لیے کی جائے، جائیداد کے لیے تقسیم ہوتی کسی معصوم کے لیے کی جائے، دس دس بچے پیدا کرکے بھی کمزور جسم میں مرد کی مرضی سے گیارہ بچہ اٹھائے کسی پیٹ کے لیے کی جائے، بازار میں نکلی کسی عام لڑکی کے لیے کی جائے جسے معاشرے کی حوس زدہ آنکھیں کھانے لگتی ہیں، ہسپتال کے وارڈ کے کوریڈور میں پڑی کسی ایسی لڑکی کے لیے کی جائے،جو بچہ پیدا کرکے مرجائے اور شوہر اس کے جسم پر آنے والے بیٹے کو ترجیح دے دے، کسی تیزاب میں جھلسے جسم کے لیے کی جائے جس پر کسی کے غصے اور تکبر کی مرضی چل گئی۔

میرا جسم میری مرضی کی تشریح ہی غلط کرنے والے گروہ کو ایک ایسے رائیٹر نے گالی دے دی جو ہال آف فیم کی بلندیوں پر تھا،اور یہ سب آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل گیا۔ ایک طرف لوگ عورت کی تکریم میں اٹھ کھڑے ہوئے اور دوسری طرف اس رائیٹر کی حمایت میں جو ہزاروں لوگوں کے دلوں میں تھا اور بالعموم مردوں کے معاشرے میں مردوں کا ہی وکیل تھا۔ یہ دو انتہا درجے پر پہنچی سوچوں کا تضاد تھا اور بیچ میں میرا جسم میری مرضی کے اصل حق دار اس کے اصل حق سے محروم رہے۔

پس پردہ اس کے پیچھے وہ بدترین عورت مارچ تھا،جس میں ایسا ہی ایک گروہ شریک تھاکہ جنہوں نے کچھ عرصے پہلے ملک میں شرم و حیا سے پیدل پلے کارڈ اٹھائے ،اس اصل کو ہی تباہ کردیا،جس کی اس مردوں کے معاشرے میں پسی ہوئی عورت کو شدید ضرورت تھی۔ انہوں نے ہم جنس پرستی، جسم کے آزاد ہونے، مردوں کی تذلیل کو اپنا غرور اور طلاق کو اپنے سر کا تاج بنا کر دکھایا اور یوں کئی دہائیوں میں اس معاشرے میں اٹھتی عورت کی آواز ہی بے حیائی میں دب کر رہ گئی۔

اب خلیل رحمان کی سخت زبان اور ماروی سرمد کا عورت کارڈ، پھر اسی عورت مارچ پلے کارڈز کی مانند سوشل میڈیا پر اس اصل حقیقت کو بدترین تعفن میں کہیں دفن کررہا ہے جس کی طرف شاید کسی کا دھیان ہی نہیں۔ جس ملک میں آج بھی الٹرا ساؤنڈ پر لڑکی کا پتہ چلنے پر اسقاط حمل کرا دیا جاتا ہو، پسند کی شادی پر بیٹی اور بہن کو ایک سالہ بیٹے کے ساتھ دفن کردیا جاتا ہو،غیرت کے نام پر جتنی مرضی نامور لڑکی ہو،ماری جاتی ہو اور بعد میں اس کا بھائی معاف کردیا جاتا ہو، پنچایت کسی مرد کی زیادتی کا فیصلہ اس کی بہن کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی صورت میں دیتی ہو، جہیز نہ لانے پر کسی جسم کو جلا دیا جاتا ہو،پچاس فیصد خواتین ناخواندہ اور اتنے ہی فیصد کم خوراک کی وجہ سے خون کی کمی کا شکار ہوں،وہاں میرا جسم میری مرضی کا مفہوم ماروی سرمد اور عورت مارچ کے پلے کارڈز نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ماروی سرمد کو سخت زبان کے وار کرکے مردوں سے داد لینے والا ،کسی کا ہیرو ہوسکتا ہے۔

ہم دو انتہاؤں میں معاشرے کا بھیانک روپ ایک ایسی بحث کی نظر کررہے ہیں جو صرف مصالحہ اور کچھ وقت کی دل لگی ہے۔ جہاں ایک طرف جنس اور مادر پدر آزاد عورتوں کا برگر ہجوم ہے اور دوسری طرف مردوں کی وفا کا امین۔ ان میں جہاں اصل حق کی حق دار عورت شامل نہیں وہیں ان میں وہ مرد بھی شامل نہیں ،جن کا سر تا پاؤں حوس اور بربریت میں ڈوبا ہو۔ وہ مرد جو عورت کے جسم کو بس گوشت کے ایک لوتھڑے سے زیادہ حیثیت نہ دیتے ہوں، چاہے جلا دیں،چاہے نوچ ڈالیں،چاہے تصاویر اور وڈیوز وائرل کرکے چوک پر حوس زدہ آنکھوں کے لیے لٹکا دیں، چاہے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کسی گٹر یا نالی کی نظر کردیں،یا چاہے پچپن میں ہی مسخ کردیں اور اپنے اندر کی حوس کو تسکین دے دیں، چاہیں اس گوشت کو بیچ ڈالیں یا اس کے بدلے اپنے کیے گناہ دنیا پر ہی بخشوا لیں۔

ایسے مردوں کا وکیل اگر مظلوم عورتوں کے جلتے جسم کی تسکین لیتی کسی مغربی سیاہی میں رنگی سوچ کے ساتھ الجھ پڑتا ہے ،تو مرد کارڈ ،عورت کارڈ کی لڑائی،اس معاشرے کی اصل کھا جاتی ہے۔ وہ چاندی زدہ بال ،اس ابال میں سفید ہونے لگتے ہیں جو اس ملک کی آبادی کا آج ایک کڑوڑ ہیں اور اپنے گھر بیٹھے ہیں کہ کب ان کے ہاتھ پیلے ہوں اور جن کے پیلے ہوجائیں،وہ میرا جسم میری مرضی کے طلاق پلے کارڈز کا اثر لے لیں اور تباہ ہوجائیں۔

کبھی کبھی مجھے سوشل میڈیا ٹرینڈنگ سے خوف یا پھر گھن آنے لگتی ہے، اس کو استعمال کرنے والے ہزاروں خلیل الرحمان اور ماروی سرمد تو ہوسکتے ہیں، شاید زینب نہیں، یا کھیتوں میں بربریت کا شکار ہوتی کوئی عورت نہیں۔ ہم کب لگژری کلچر اور سوچ سے نکل کر اس کلاس کی نمائندگی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے جن کی اکثریت کے پاس نہ تو خلیل الرحمان کے ڈرامہ دیکھنے کے پیسے ہیں اور نہ ہی ماروی سرمد کے عورت مارچ میں شریک ہونے کے۔

وہ تو بس یوں ہی مردوں کے اس معاشرے میں کہیں تاریکی میں جنم لیتی ہیں، جوان ہوتی ہیں،نوچی جاتی ہیں اور ختم ہوجاتی ہیں اور پھر گمنام کسی مٹی کی ڈھیری میں دفن ہوجاتی ہیں۔ ان کا نہ جسم اپنا ،نہ مرضی اپنی اور ادھر چیخ چیخ کر نعرے بلند ہوتے ہیں میرا جسم میری مرضی اور پھر چند سخت لہجے اور پھر ایک وحشت زدہ بحث۔ ہم واقعی ایک تخیل زدہ زندگی کے باسی ہیں،جس کے لکھاری شاید ،انگوٹھوں کے نیچے سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ کی تقدیریں لکھتے ،اصل کو مسخ کردیتے ہیں،اور اجسام کے ہجوم میں مٹی ہوئے اجسام بھول جاتے ہیں،وہ جو میرا جسم میری مرضی کی اصل حقیقت ہیں، تاریکیوں میں سہمی،نوچی،جلی ہوئی مسخ شدہ حقیقت۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :