محبت اور اطاعت!!

جمعرات 7 دسمبر 2017

Dr Azhar Waheed

ڈاکٹر اظہر وحید

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محبت کا لازمی نتیجہ اطاعت ہونا چاہیے، اگر محبت اطاعت میں نہیں ڈھل رہی تو محبت کے دعوے کو جھوٹا تصور کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کا تصور یہ ہے کہ محبت بجائے خود ایک عمل ہے، اگر محبت برقرار رہے تو یہی عمل کسی بھی اطاعت سے بڑھ کر ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ایمان کی اساس محبت ہے۔ عمل کی اساس نیت ہے۔ محبت اور نیت دونوں کی جائے قرار دل ہے۔

لازم ہے ٗکہ اگر دل درست ہو تو اعضاء و جوارح صحت کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اطاعت کا اظہار عمل سے ہوتا ہے اور عمل کے اظہار کیلئے اعضاء و جوارح کو حرکت میں لانا ہوتا ہے۔ نیت اور عمل کے درمیان فرق کو منافقت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہم اپنے درجہ منافقت سے تو آگاہ ہو سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کی منافقت کی اطلاع نہیں دے سکتے ، کیونکہ ہم کسی کے دل میں پوشیدہ بات پر مطلع نہیں ہو سکتے۔

(جاری ہے)

کسی کے اعمال ہمیں اس کی نیت کے متعلق آگاہی نہیں دیتے۔ ایک مسجد میں لوگوں کو باجماعت نماز پڑھتا ہوا دیکھیں تو دیکھنے میں سب کی نماز ایک سی معلوم ہوتی ہے ، لیکن یہی نماز مومن، مسلم اور منافق سبھی پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی کی بے عملی کو بدنیتی سے تعبیر کرنے کیلئے بڑی جہالت اور بڑاحوصلہ چاہیے۔” علیمُ بِذاتِ الصّدُور“ تو ایک ہی ذات ہے.... اور وہ ذات کہہ رہی ہے کہ ”نہیں پہنچتا اللہ کو تمہاری قربانیوں کا خون اور گوشت مگر یہ کہ تقویٰ“۔

گویا نیت اور محبت کی طرح تقویٰ کا محل بھی دل ہے۔ عجیب راز ہے‘ مومن کی نیت کو اس کے عمل سے بہتر کہا گیا ہے۔ اب نیت کا راز کیا ہے؟ ایسے معلوم ہوتا ہے ‘جیسے نیت بندے اور رب کے درمیان ایک پیمان ہے.... اور یہ پیمان وہ پیمانہ ہے جس سے عمل کا قد کاٹھ ماپا جاتا ہے.... لیکن یہ پیمانہ بندوں کے ہاتھ میں نہیں‘ رب کے ہاتھ میں ہے۔ نیت محبت کی طرح ایک رمز معلوم ہوتی ہے:
میانِ عاشق و معشوق رمزیست
کراماً ماتبین را خبر نیست
( عاشق و معشوق کے درمیان ایک ایسی رمز ہوتی ہے جس کی خبر کراماً کاتبین کو بھی نہیں ہوتی)۔

لوگ جتنے بھی کراماً کاتبین ہو جائیں وہ صرف اعمال کا جائزہ لے سکتے ہیں‘ نیّات کا نہیں.... لوگوں کی نیّات کیا ہیں، ان کے فرشتوں کی بھی خبر نہیں ہوتی!! شریعت اور قانون کا اطلاق صرف ظاہر پر ہوتا ہے۔ ہر ظاہر کے پیچھے ایک باطن اسی طرح کارفرما ہے جس طرح ہر عمل کے پیچھے ایک نیت!!
کیا محبت ایک دعویٰ ہے جسے ثابت کرکے دکھانا بہت ضروری ہے؟ کیا محبت کے دعوے کا جوابِ دعویٰ داخل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

کیا محبت کے کیف سے دوسروں کو آگاہ کرنا اَز حد ضروری ہے؟ کیا عمل ہر صورت محبت کے اظہار کی کوئی صورت ہوتا ہے؟
محبت، نیت اور ایمان کی ماہیت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عمل کی عمارت انہی تین بِناؤں پر اٹھائی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے بِنا عمل مخدوش بھی ہے اور مخذوف بھی!! عمل کی عمارت کیلئے یہ ایک tripod سہ رکنی بنیاد ہے ۔ ان میں سے ایک رکن بھی کمزور ہو تو نتیجہ کم عملی سے لے کر بے عملی اور پھر بد عملی تک نکل سکتا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں ایمان کا تذکرہ ہوا ہے‘ وہاں ساتھ ہی عملِ صالح کی تلقین بھی ہوئی ہے۔ درحقیقت ایمان محبت اور نیت کی نوعیت اس عملی دنیا میں نظریاتی ہے، جب تک اسے عمل کا لباس نہیں پہنایا جاتا ‘ اس کنکریٹ ورلڈ‘ دنیائے تجسیم میں یہ ظہور پذیر نہیں ہو سکتیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کنکریٹ ورلڈ میں کئے گئے اعمال کا محاسبہ اور مواخذہ اُس دنیا میں ہوگا جہاں حالتِ تجرید abstract ہے۔

وہاں پڑتال کی پہلی شرط ایمان ، نیت اور دل کا تقویٰ ہے۔ وہاں اعمال کی مقدار نہیں بلکہ معیار کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ وہاں پاک عمل ہی قبول ہوتا ہے اور پاک عمل کیلئے نیت کا ہر غرض سے پاک ہونا ضروری ہے۔ یہ نیت کا وضو ہے۔ اعمال کی کمی محبت سے پوری کی جا سکتی ہے لیکن محبت کی کمی کو اعمال کے پہاڑ بھی پورا نہیں کر سکتے۔ فضائل اعمال میں نہیں بلکہ نیات میں ہوتے ہیں۔

فضیلت محبت کو حاصل ہے۔ نجات نیت سے ہے۔ اعمال درجات کی بلندی کا سبب ہوتے ہیں۔
یہ درست ، اور ہزار بار درست، کہ محبت کا عملی اظہار اطاعت کی صورت میں ہونا چاہیے۔ جس مقام پر محبت اطاعت کے ساتھ جلوہ گر ہو، وہ مقام نور’‘ علی نور.... لیکن بہت سے مقامات ابھی ترقی پذیر ہوتے ہیں۔ زمان و مکان کی ترتیب میں پہلے نیت ہوتی ہے ، پھر عمل آتا ہے!! نیت کو عمل کی سرحد تک لے جانے میں زمان و مکان میں کچھ مرحلے طے کرنا ہوتے ہیں۔

نیت، محبت اور ایمان عالمِ اَمر کے امتیازات ہیں، وہاں وقت نہیں ہوتا لیکن وجود کو عمل کے اظہار کیلئے جو پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے ٗ وہاں زمان و مکان کی کڑیاں اپنی کڑی شرائط کے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ یوں سجھ لینا چاہیے کہ نیت ایک بیج کی طرح ہے اور عمل کسی تناور درخت کی مانند۔ ظاہر پرست آنکھ کو درخت نظر آتا ہے ، بیج نظر نہیں آتا۔ کسی معمولی سے بیج کی بھی تحقیر نہیں کرنی چاہیے.... کیا معلوم یہی نظر نہ آنے والا مہین سا بیج کل کو برگد کا سایہ دار درخت بن جائے اور صدیوں کی مسافت طے کرے۔


بس! اپنے عمل کو ناکافی اور دوسروں کی نیت کو کافی سمجھ لینا چاہیے۔ محاسبہ اپنا اور حوصلہ دوسروں کا بڑھاتے رہنا چاہیے .... اسی طرزِ فکر و عمل میں انفرادی اور اجتماعی ارتقا بھی ہے اور عافیت بھی!! اپنے ساتھ انصاف اور دوسروں کے ساتھ احسان کا رویہ ہی مستحسن ہے۔ اپنے قول و فعل میں تضاد کونفاق سمجھنا چاہیے لیکن کسی کے قول و فعل میں تضاد نظر آئے تو اسے اس کی مجبوری اور معذوری تصور کرنا چاہیے۔

شک کا فائدہ دے دوسروں کو دھرنے کی بجائے بری کرنا چاہیے۔ شک کے کٹہرے میں ہمیشہ خود کو کھڑا کرتے ہیں!!
قول اور عمل میں حائل خلیج کے اسباب بہت سے ہیں۔ ان سے خایف نہیں ہونا چاہیے۔ قول کو عمل میں ڈھلنے میں تاخیر کی ایک وجہ عزم کی کمی ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت کی کمی بھی اس میں ایک کردار ادا کرتی ہیں۔ وجود کا جمود اِن رکاوٹوں میں سرِ فہرست ہے جو ہماری نیت اور عمل کے درمیان حائل ہوتی ہیں۔

ہمارا مزاج ‘وہ موہوم سی رکاوٹ ہے جو ہمیں خود نظر آتی لیکن کسی صاحبِ بصیرت کی نگاہ اسے آنک لیتی ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے کہ اپنے علم کو عمل میں لانے کیلئے یقین کے ساتھ ساتھ ایک راہنما کی بھی ضرورت ہوتی ہے.... اور یہ کہ کوئی راہ راہبر کے بغیر طے نہیں ہوتی۔ لوگوں کے علم اورعمل میں فرق دیکھ کر گھبرانے کی ضرورت نہیں، لوگ ابھی راستے میں ہے، قافلہ ابھی سفرمیں ہے.... ہم تجزیہ نگاراور وقائع نگار قسم کے لوگ بھی ابھی راستے میں ہیں۔

ایک مسافر کو زیبا نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسافر کے سفر اور اندازِ سفر پر تنقید کرے۔ جب آنکھ بند ہوگی، تب کھلے گی۔ زندگی ایک مسلسل امکانات کی جا ہے، مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ نیت ، محبت، ایمان اور یقین کاعَلم بلند رکھنا چاہے، آج نہیں تو کل عمل کی شاہراہ کا انٹرچینج ضرور نظر آئے گا، ایک بار شاہراہِ عمل پر قدم رکھ دیا تو منزل سے پہلے رکنے کے نہیں۔

درست اور راست نیت کے ساتھ اتھایا ہوا قدم عازمِ عمل ضرور ہوگا۔ محبت کی توقیر بہرطور لازم ہے۔ محبت کو اعمال کے باٹ سے نہیں تولا کرتے!!
ٍ جب بھی کسی غم یا خوشی کاکوئی تہوار ایک برس کا قمری دَورہ مکمل کرنے کے بعد دوبارہ وارد ہوتا ہے تو لوگوں کی محبت اور غم دونوں پر عقلی اعتراضات بھی وارد ہونے لگتے ہیں۔ دلی کیفیات پر عقلی اعتراضات غیرمعقول بھی ہیں اور غیر منقول بھی !! محبت اور غم انسان کی جمالیاتی جہت کے لوازمات ہیں ، ان کا اظہار فطری ہے۔ ان پر اعتراض غیر فطری!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :