کورونا نے آن لائن تعلیم کے راستے ہموار کر دیئے

ہفتہ 13 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

موجودہ دور میں انٹرنیٹ کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جس قدر انٹرنیٹ سے مستفید ہورہے ہیں،ہم اس قدراس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ہمارے یہاں زیادہ تر نوجوان انٹرنیٹ کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ دنیا انٹرنیٹ کو تعلیم،کاروبار،ہر طرح کی سروسز،رہنمائی،قانونی مشورے،شادیاں کروانے،صحت غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں انٹرنیٹ سے استفادہ کر رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں آن لائن اور ای سروسز ہر شعبے میں دستیاب ہیں۔ اس سال دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے جس قدر لوگوں نے انٹرنیٹ استعمال کیا، شائد ہی کبھی اتناکیا ہو۔دنیا بھر کو کورونا سے اپ ڈیٹ، آگاہی اور بچاو سے متعلق موثر ترین ذریعہ بھی انٹرنیٹ ہی ثابت ہوا ہے۔

(جاری ہے)

کورونا کے باعث جب ملک میں لاک ڈاون لگا تو تعلیم سمیت دیگر شعبوں نے آن لائن اور ای سروسز کا استعمال شروع کیا۔

نہ صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے آن لائن تعلیم کا رخ کیا بلکہ حکومت نے بھی ٹیلی سکول کے نام سے آن لائن تعلیم کا پروگرام شروع کیا جس کے تحت نرسری سے بارہویں جماعت تک کے طالب علموں کو محتلف مضامین پر لیکچرز دیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں نظام تعلیم پرائمری، مڈل سیکنڈری، ہائرسیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر روایتی طریقہ تعلیم رائج ہے جب کہ آن لائن تعلیم کا کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔

کورونا سے قبل ہائر ایجوکیشن لیول پرورچوئل یونیورسٹی آن لائن تعلیم دے رہی تھی جبکہ دیگر یونیورسٹیاں تعلیم سے متعلق آن لائن رہنمائی اور کتب کی سہولتیں دے رہی تھیں۔سکولوں کی سطح تک ابھی آن لائن ایجوکیشن کو اتنا فروغ حاصل نہیں تھا لیکن جب لاک ڈاون کی وجہ سے طلباء کا تعلیمی اداروں میں جاناناممکن ہوگیا تو ان کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے ہر تعلیمی ادارے نے انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا تاکہ جہاں تک ممکن ہوطلباء کی تعلیم کو جاری رکھا جاسکے۔

سکول کی سطح پر آن لائن کلاسز بچوں کے لئے چونکہ ایک نیا تجربہ ہے اور اساتذہ کو بھی اس حوالے سے مناسب تربیت نہیں تھی اس لئے آن لائن تعلیم کے حوالے سے والدین کو کچھ شکایات ہیں ،چونکہ آن لائن تعلیم کی جانب یہ آغاز ہے اس لئے امید ہے کہ آئندہ وقت میں آن لائن تعلیم میں جدت آئیگی اور اساتذہ بہتر انداز میں طلباء کو تعلیم دے سکیں گے ۔
آن لائن کلاسز سے بچے اور والدین کیوں مطمئن نہیں ؟اس حوالے سے میرے ایک دوست '' نے ٹیو سکولز'' کے مینجنگ ڈائریکٹر رضاالرحمن صاحب نے اپنی ایک گفتگو میں بتایاکہ لاک ڈاون کے کچھ دن بعد ہی ہمارے سکولز نے آن لائن ایجوکیشن کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور اب تک ٹیچرز بچوں کو آن لائن تعلیم دے رہی ہیں تاکہ بچوں کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو۔

لاک ڈاون کے بعد ہم ٹیچرز کو آن لائن تعلیم دینے کے لئے مناسب تربیت نہیں دے سکے جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گورنمنٹ کی پابندی کی وجہ سے ٹیچرز کو سکول بلانے کی ممانعت تھی،یہ سارا کچھ جلدی اور ایمرجنسی میں ہونے کی وجہ سے ٹیچرز کے اندر آن لائن تعلیم دینے کی وہ کوالٹی نہیں آئی جو آنی چایئے تھی۔ تاہم ہم نے ان ٹیچرز کو ایک لیڈر کے طورپر تربیت دی کہ کس طرح انھوں نے اپنی کلاس کے بچوں کو آن لائن پڑھانا ہے،کیسے نصاب کو ترتیب دینا ہے اور کیسے اس پر عملدرآمد کرنا ہے ۔

رضا الرحمن کا کہنا تھا کہ ان حالات میں ٹیچرز نے جو کوشش کی وہ قابل تعریف ہے اس وقت اگر ٹیچرز آن لائن لیکچر دے رہی ہے تو اس کے ذہن میں یہ بھی پریشر ہوتا ہے کہ اس کا لیکچر بچوں کے ساتھ والدین بھی دیکھ اور سن رہے ہیں اور یہ پریشر تب زیادہ ہو جاتا ہے جب لیکچر کے دوران اکثر بچوں کے والدین یا پاس بیٹھی ٹیوشن والی باجی، ٹیچرز کی غلطیاں نکالنا شروع کردیتے ہیں ۔

ٹیچرز محنت کررہی ہیں اور جلد وہ آن لائن تعلیم دینے میں ماہر بھی ہوجائیں گی ۔ٹیچرز،سٹوڈنٹس اور والدین ایک سپورٹیو ٹرائی اینگل ہے جب سب ایک دوسرے کو سپورٹ نہیں کریں گے ہم کسی کو کامیاب نہیںکرسکیں گے ۔
کورونا کے باعث طلباء کوآن لائن تعلیم دینے کا سلسلہ اب تقریبا ہر تعلیمی ادارے نے شروع کر دیا ہے لیکن ٹیچرز کو آن لائن تعلیم دینے کی تربیت نہ ہونے کے باعث طلباء کے والدین مطمئین نہیں ہیں، اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ ٹیچرز کو آن لائن تعلیم دینے کے حوالے سے مفت تربیتی کورسب بھی شروع کرائے تاکہ وہ بہتر طریقے سے طلباء کو آن لائن تعلیم دے سکیں،اس طرح بچے کے پاس بیٹھی ٹیوشن والی باجی اور والدین کو بھی کسی قسم کا اعتراض اٹھانے کا موقع نہیں مل سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :