خون ابھی بھی سرخ ہے

پیر 15 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

انسان کی رگ رگ میں خون دوڑ رہا ہے اگر کسی ایک رگ تک خون صحیح طرح نہ پہنچے تو وہ حصہ مفلوج ہوجاتا ہے اسی لئے انسانی زندگی کا دارومدار خون پر ہے۔خون کی اہمیت کے پیش نظراکثر آپ نے یہ فلمی ڈائیلاگ توسنے ہونگے جیسے اسے اب رشتوں کی پہچان نہیں رہی کیونکہ اس کا خون سفید ہوچکا ہے، میں ظالموں سے تمھارے خون کی ایک ایک بوند کا حساب لے کر رہوں گا،میں اتمھارا خون پی جاوں گا،آج تیرے خون کی قسم کھاتا ہوں دشمنوں کو مٹا دوں گا، سرزمین کی حفاظت کے لئے ہم اپنا خون بہا دیں گے،ڈاکٹر میرے خون کا ایک ایک قطرہ لے لولیکن اس کی جان بچا دو،اس کی بے وفائی نے خون کے آنسو رلا دیا،خون چاہیے خون دیں گے،اس کی رگوں میں اس کے باپ کا خون دوڑ رہا ہے،اپناخون دے کر مٹی کا قرض چکانا ہوگا،اپنی محبت کا یقین دلانے کے لئے میں نے تمھیں اپنے خون سے محبت بھرا خط لکھا ہے،دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلی،معصوموں کے خون سے تاریخ لکھی جائے گی،میں تمھارا بھائی ہوں ہم دونوں کی رگوں میں ایک ہی باپ کا خون دوڑ رہا ہے،گناہوں کی دلدل میں پھنس کراس کا خون گندا ہوچکا ہے۔

(جاری ہے)

تم میرا خون نہیں ہو،خون کا رنگ لال ہی ہوتا ہے چاہے وہ خون کسی کا بھی ہو۔یہ میرے خون پسینے کی کمائی ہے۔
یہ وہ فلمی ڈائیلاگ ہیں جس کودیکھ کرپر سینماہال میں تالیاں گونجنے لگتی ہیں۔خون پر فلمی ڈائیلاگ لکھ کر رائٹر اورپردہ سکرین پر ان ڈائیلاگ کو جذباتی انداز میں بول کر فلمی ہیرو خوب داد سمیٹے ہیں،لیکن ہم نے کبھی یہ سوچا کہ حقیقی زندگی میں خون کی اہمیت کیا ہے ؟ خصوصا اس انسان کے لئے جو زندگی اور موت کی کشمکش میں اپنے اصل ہیرو کے انتظار میں ہوتا ہے ،وہ ہیروجو اسے خون کا عطیہ دے گا تاکہ اس کی جان بچ جائے۔

زندگی کے اصل گمنام ہیرو یہی وہ لوگ ہیں جو فرشتہ بن کر آتے ہیں اور بغیر کسی لالچ اور مفاد کے اپنی رگوں میں دوڑنے والا خون عطیہ کر کے دوسرے کی جان بچاتے ہیں،ایسے افراد پردہ سکرین پر جذباتی ڈائیلاگ نہیں بولتے بلکہ خاموشی سے اپنا اخلاقی فرض پورا کرتے ہیں ،ان افراد کے اس کارنامے پر کوئی بھی تالیاں نہیں بجاتا اور نہ ہی ان کو تالیاں بجوانے کا شوق ہوتا ہے وہ تو بس اپنے رب کو راضی کرنے کی دھن میں ہوتے ہیں۔

دین اسلام میں ایسے افراد کی نیکی کے بارے میں خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ:”جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی“ اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ کسی ایک کی جان بچانے کا اجر کس قدر زیادہ ہے اسلام کے اس اصول پر آج دنیا کاربند ہے اور دوسروں کی جان بچانے کی ترغیب دے رہی ہے۔اس کے باوجود دنیا میں ایسے بھی ہیں جو دوسروں کی جان بچانا تو درکنار بلکہ ڈھٹائی سے دوسروں کی جان لے رہے ہیں ۔

مقبوضہ کشمیر میں ہر روزمعصوم کشمیریوں کی جان جس طرح لی جارہی ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ مودی کے اندر انسانیت ختم ہوچکی ہے ،اپنے بھاشن میں مودی انسانیت کی بھلائی اور انسانیت کو بچانے کی باتیں کرتا ہے لیکن عملی طور پر وہ آج کے دور میں انسانیت کا سب سے بڑا قاتل ہے۔
بہرحال میرا آج کا کالم حقیقی زندگی کے ان گمنام ہیروز کے متعلق ہے جو اپنے خون کا عطیہ کرکے دوسروں کی زندگی بچاتے ہیں۔

خون کا عطیہ دینے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون کے عطیات دینے کا دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خون کا عطیہ دینے کا مثبت رجحان بڑھے۔اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے 2005 میں 58 ویں ہیلتھ اسمبلی کے موقع پر کیا جس کا مقصد محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانا تھا۔

یہ دن کارل لینڈ اسٹینر کی سالگرہ 14 ،جون 1868 سے بھی منسوب ہے جنہوں نے اے بی او بلڈ گروپ سسٹم ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے آج بھی خون انتہائی محفوظ طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 کروڑ سے زائد افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے خون عطیہ کرنے سے انسان تندرست اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

اس وقت کورونا وائرس کے باعث خون کا عطیہ دینے کی اہمیت اور ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے حالیہ ریسرچ کے مطابق پلازمہ سے کورونا کے مریضوں کی جان بچانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن افسوس پلازمہ عطیہ کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔پلازمہ نہ صرف صحت مند افراد عطیہ کرسکتے ہیں بلکہ کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کا پلازمہ کورونا مریضوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوا ہے ۔

دنیا بھر کے سائنسدانوں نے انسان کے خون پر تحقیقات کا سلسلہ ابھی بھی جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ خون کی کمی اورخون کی خرابی انسان کو بہت سی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے ۔سائنسدان خون کا متبادل بھی تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں،ان کے خیال میں جس طرح بہت سے انسانی اعضاء کا متبادل تلاش کرکے استفادہ کیا گیا ہے ،ممکن ہے خون کا متبادل بھی مل جائے اورخون کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی جان بچائی جاسکے۔انسانیت کی جان بچانے والے آج بھی اس دنیا میں زندہ ہیں اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا ” کہ خون ابھی بھی سرخ ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :