ماسک یا موت ؟

بدھ 24 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

اس صدی کے سب سے بڑے وائرس کورونا نے دنیا بھر میں تباہی کا سلسلہ ابھی بھی جاری رکھا ہوا ہے۔روزانہ لاکھوںافراد کورونا کا شکارہوکر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔اس قدر تباہی کے باوجود کورونا وائرس کا انسانی جانوں سے کھیلنے کا شوق کم نہیں ہوسکا۔اس وائرس نے دنیا کی سپر طاقتوں کو گھٹنے کے بل گرا دیا ،دنیا کے طور طریقے بدل دیئے،رہن سہن ،عبادات میں خلل ڈالا،قبرستانوں کو آباد کیا،پیاروں کوایک دوسرے سے جدا کیا،دنیا کی آبادی کو چند مہینوں میں کم کر کے رکھ دیا،اب یہ وائرس اور کیا چاہتا ہے؟دنیا اپنے مدار میں گھوم رہی ہے لیکن کورونا نے لوگوں کو ایک الگ مدار میںگھمانا شروع کر دیا ہے۔

بدقسمتی سے اس جان لیوا وائرس کی ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوسکی،جیسے ہی اس کے علاج کے حوالے سے دعویٰ،خبریں سامنے آتی ہیں اس کے کچھ دن تجربات کے بعد پھر وہی مایوسی پھیل جاتی ہے بلکہ یہ مایوسی مزید بڑھ جاتی ہے کہ آخر یہ وائرس کب اپنے انجام کو پہنچے گا ؟
دنیا بھر کی حکومتیں اپنے ملک کے باسیوں کی جان بچانے کے لئے سر توڑ کوششوںمیں لگی ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

دنیا میںکورونا کی ابتداء سے لے کر اب تک کورونا سے بچنے کاصرف ایک ہی حل سامنے آیا ہے اور وہ ہے سماجی یا جسمانی فاصلہ اور ماسک۔ان دونوں حفاظتی طریقوں کی ضرورت کے پیش نظر ہر ملک میں لوگوں کو حکومتی اداروں کی جانب سے ہدایات دی جاتیں رہیں کہ یہ حفاظتی طریقے اختیار کر کے اپنی اور دوسروں کی جان بچائیں۔جب لوگوں کی اکثریت نے ان ہدایات کو نظر انداز کیا تو ان ہدایات پر عملدرآمد کروانے کے لئے سختی کی گئی اور جرمانے بھی کئے گئے۔

کچھ اسی طرح کی صورتحال پاکستا ن کی بھی ہے جہاں لوگوںنے ہر موقع پر کورونا سے متعلق حکومتی ہدایات کو ہوا میں اُڑا کر اپنی جانیں بھی گنوئیں اور دوسروں کو بھی خطرے میں مبتلا کر دیا۔سب سے بڑی تعجب کی بات ہے کہ موت کو سامنے دیکھتے ہوئے لوگ اس کی طرف خود ہی بڑھ رہے ہیں۔یہ کیسی عقلمندی ہے؟ یہ کیسی بہادری ہے؟ لوگ اپنے پیاروں ،اپنے بچوں ،خواتین اور بزرگوں کو ساتھ لے کر بغیر کسی اشد ضرورت کے باہر آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں،یہاں تک کے شادیوں کی تقریبات بھی اس لئے چھپ کر کی جارہی ہیں کہ پولیس کو باراتیوں کی تعداد کا پتہ نہ چل جائے ۔

آخریہ لوگ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟پولیس کو یا کورونا کو ؟ اس طرح شائد وہ پولیس کی نظروں سے تو بچ سکتے ہیں لیکن کورونا کی نظروں سے بچنا مشکل ہے کیونکہ کورونا کی نظریں ہر وقت ان پر لگی ہیں،جہاں کہیں کسی نے معمولی سی بھی بے احتیاطی کی نہیں،وہیں کورونا نے عقاب کی طرح جھپٹا مارا اور اس کا شکار کر لیا۔
شائدلوگ اب تک اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے کہ کورونا وائرس کے پھیلاو کا سب سے بڑا ذریعہ وہ خود ہیں ،اس وائرس کا علاج ڈاکٹروںاور سائنسدانوں کے پاس نہیں بلکہ لوگوں کے اپنے ہاتھوں میں ہے،اگر دیکھا جائے تواس مہلک وائرس کی سب سے بڑی ویکسین انسان خود ہے اس لئے اس مہلک وائرس کا دنیاسے خاتمہ کرنے کے لئے ہر شخص کو ڈاکٹر ،سائنسدان بننا پڑے گاجس لئے بس یہ سوچ کر سب کو ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ برقرار رکھناہوگا کہ وہ انسانیت کو بچانے کے لئے ویکسین بنا رہا ہے۔

جو لوگ آج اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے ،وہ یاد رکھیں ایک دن کورونا انہی لوگوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور بھی کردیتا ہے۔جب لوگ اپنی ہی جان بچانے لئے احتیاط نہیں کرتے تو مجبورا حکومت کو جرمانے کرنے پڑتے ہیں کہ شائد کورونا سے نہ ڈرنے والے لوگ ،جرمانوں کے ڈرسے ہی احتیاط کر لیں۔انہی وجوہات کے پیش نظر پنجاب حکومت نے بھی ہرجگہ،ہر سرکاری محکمہ میں ماسک پہننے کی پابندی لگائی ہے،اس پابندی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے ماسک نہ پہننے والوں پر جرمانے بھی عائد کئے گئے ہیں ۔

اب آپ ہی بتایئے کہ حکومت لوگوں کی جان بچانے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا کرے؟ کیا کورونا پھیلانے والوں کو جیل میں بند کردیا جائے ؟یا ؎شہری آبادیوں سے نکال کرکسی جنگل میں بھیج دیا جائے؟ ایسے افراد توجنگل میں جا کربھی اپنی ڈھٹائی برقرار رکھتے ہوئے اُلٹا جانوروں کو کورونا میں مبتلا کردیں گے۔کیا ایسے افراد کو سمندر میں پھینک دیا جائے؟ کیونکہ بے احتیاطی کرکے انھوں نے موت کو ہی تو چننا ہے ۔

آخرایسے افراد کے ساتھ کیا کیا جائے؟ہر فرد اپنے ضمیر سے پوچھے کہ ہم سب کیا کر رہے ہیں؟اس سوال کا یہی جوب ملے گا کہ لوگ ایک جان لیوامردہ وائرس کی خودپرورش کر ہے ہیں،اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی بجائے اس اس کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اب تو تنگ آکرکورونا نے سب کے سامنے دو آپشنزرکھ دیںہیں ،ماسک یا موت؟اس بات کافیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :