میاں نواز شریف کی اپنی ماں سے محبت

منگل 24 نومبر 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

جب سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے خلاف بنائے گئے ریفرنسز کا سامنا کرنے کے لئے پاکستان واپس آرہے تھے تو ان کی والدہ مرحومہ شمیم اختر کا ایک ویڈیو پیغام وائرل ہوا جس میں انھوں نے کہا تھاکہ ''پاکستان کا بیٹا میرا بیٹا ہے جس نے اسے روشن بنایا، کل وہ واپس آرہا ہے تاکہ میں پھر سے اس کا ماتھا چوم سکوں۔''ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے بیٹے نواز شریف کو جیل بھیجا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ جیل جاوں گی۔

''یہ ایک ماں کا اپنے بیٹے کی محبت میں ایک والہانہ ویڈیو پیغام تھاجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیگم شمیم اختر اپنے بیٹے نواز شریف سے کس قدرمحبت کرتی تھیں۔جب 2018 میں الیکشن ہوئے تو بیگم شمیم اختر نے اپنا ووٹ ٹیکنالوجی کالج ریلوے روڈ پر کاسٹ کیا۔ اس وقت ان کا ووٹ نمبر193 تھا۔

(جاری ہے)

ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ان کی تصویر بھی شئیر کی گئی جس میں وہ اپنے انگوٹھے پر ووٹ کاسٹ کرنے بعد لگایا جانے والا نشان دکھا رہی تھیں ،تصویردیکھنے والوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ کہ ایک ماں اپنے بیٹے کی کامیابی کے لئے کس قدرکوشاں ہے۔

دوسری جانب جب میاں نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں منتقل کیا جانے لگا تا تو انھوں نے کوٹ لکھپت لاہورجیل میں منتقل ہونے کی درخواست دی تاکہ ان کی والدہ جو ویل چیئرکے سہارے نقل وحرکت کرسکتی تھیں ،ان کو اپنے بیٹے نواز شریف سے ملنے میں آسانی ہو۔ماں اور بیٹے کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف اپنے ہر فیصلے سے قبل اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اورانھیںاپنی سیاسی مہم جوئی یا اہم فیصلوں سے متعلق پہلے آگاہ کرتے اور پھر اجازت ملنے پر اپنے ان فیصلوں یا مہم جوئی پر عملدرآمد کرتے۔

ایک طرح سے دیکھا جائے تومیاں نواز شریف کی کامیابی میں ان کی والدہ کی سرپرستی اور رہنمائی کا کردار سب سے زیادہ تھا ۔
کچھ عرصہ قبل جب جیل میں میاں نواز شریف علیل ہو گئے اور انھیں ملک سے باہر بھیجنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں توانھوں نے کہا کہ وہ باہر نہیں جائیں گے بلکہ اپنی سرزمین پر جیل میں ہی مرنا پسند کریں گے چنانچہ اس موقع پرمیاں نواز شریف کو علاج کے لئے بیرون ملک علاج کے لئے رضامند کرنے کے لئے ان کی والدہ سے درخواست کی گئی تھی ۔

والدہ کے کہنے پرنوازشریف رضامند ہوگئے اور علاج کے لئے لندن چلے گئے۔
بیگم شمیم اختر جب اپنے بیٹے سے اداس ہوگئیں تو ملنے کے لئے لندن چلی گئیں حالانکہ ڈ اکٹروں نے انھیں سفر کرنے سے منع کیا تھا اور وہ کچھ عرصہ سے علیل بھی تھیں ۔بیگم شمیم اختر اپنے تمام بیٹوں سے پیار کرتی تھیں اپنے بیٹوں کا ماتھا چومتے ہوئے یا بیٹوں کا ماں کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے اکثر تصویریں بھی وائرل ہوتی رہتی تھیں ۔

بیگم شمیم اختر ایک ایسی ماں تھیں جن کے پیار،شفقت اور دعاوں سے دوسرے بھی فیض یاب ہوتے رہتے تھے ۔شریف خاندان پرجب بھی سیاسی کڑی مشکلات آئیںیا میاں شریف مرحوم،عباس شریف مرحوم اور مرحومہ کلثوم نواز کی وفات جیسی دردناک آزمائشیںہوں،بیگم شمیم اختر نے ہر حالات کا مقابلہ کیا اورکبھی بھی اپنے شوہر ،بیٹوں یا خاندان کے لئے کمزوری کا سبب نہیں بنیں بلکہ ان کے لئے ہمت اورطاقت کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔

وہ ایک گھنے درخت کی طرح سایہ کئے ہوئے اور ایک چٹان کی طرح اپنے خاندان کے ساتھ کھڑی تھیں۔
بیگم شمیم اختر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔شائد میاں نواز شریف اپنی والدہ کی تدفین میں شرکت نہ کرسکیں۔یہ بھی ایک دلخراش اتفاق ہے کہ نواز شریف جلا وطنی کے باعث اپنے والد کی تدفین میں بھی شرکت نہیں کرسکے تھے۔ والدہ کی وفات پر جب دونوں بھائیوں(نوازشریف اور شہباز شریف)کی آپس میں بات ہوئی تو دونوں آبدیدہ ہو گئے اور اس وقت کوبھی یادکیاجب ان کے والد فوت ہوئے تھے لیکن جلا وطنی کے باعث وہ دونوں پاکستان ان کی تدفین کے لیے نہیں آسکے تھے۔

حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جیل میں سزا کاٹ رہے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کوبیگم شمیم اختر کی تدفین میں شرکت کے لئے پیرول پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بیگم شمیم اختر کی وفات پر وزیر اعظم عمران خان اورآرمی چیف قمر جاوید باجوہ سمیت تمام سیاسی رہنماوں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔بلاشبہ بیگم شمیم اختر نے اپنی زندگی میںجو کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تادیر یاد رکھی جائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :