THE CLOCK IS TICKING تپ دق کا عالمی دن

منگل 23 مارچ 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

ایک وقت تھا جب کینسر کے بعدایڈز دنیا کی سب سے خطرناک بیماری سمجھی جاتی تھی لیکن جب تپ دق کے مریضوں کی شرح اموات حد سے بڑھ گئی تو عالمی ادارہ صحت نے تپ دق کو سب سے مہلک بیماری قرار دے دیا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں موت کی وجہ بننے والی دس اہم بیماریوں میں کورونا کے علاوہ تپ دق بھی ہے۔سن1882ء میںامریکہ اور یورپ میں اچانک موت کے سائے ہر طرف منڈلانے لگے ،ہر سات میں سے ایک شخص ایک نئی اور انجانی بیماری میں مبتلا ہوکر ہلاک ہونے لگاتوسائنس دانوں نے اس بیماری کا کھوج لگانے کے لئے دن رات تجربات شروع کردیئے۔

آخر جرمنی کے شہر برلن کے ایک سائنس دان ڈاکٹر رابرٹ کوچ نے اس بیماری کاکھوج لگالیا، ڈاکٹر مارکس کوچ نے 24مارچ 1882ء میں'' تپ دق ''بیماری کے جرثومے ''مائیکرو بیکٹیریم ٹیوبر کلاسس'' کی تشخیص کر لی جس کے بعد اس بیماری کا علاج دریافت کرنے کی راہیںہموار ہوگئیں۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر رابرٹ کی اس کامیابی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہر سال 24 مارچ کو تپ دق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

اس عالمی دن کے موقع پر ڈاکٹر رابرٹ کے کارنامے کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تپ دق کے تباہ کن صحت ، معاشرتی اور معاشی نقصانات کے بارے میں شعور بیدار کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس موذی مرض کو ختم کرنے کے لئے اپنی کوششیں مزید تیز کرسکیں۔اس سال اس دن کا موضوع ہے ''THE CLOCK IS TICKING''موجودہ سال اس دن کا موضوع اس بنیاد پر رکھا گیا ہے کہ عالمی رہنماوں کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ تپ دق کے خاتمہ کے لئے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا وقت گذرتا جارہا ہے خصوصا کورونا کی وباء کے دوران تپ دق کے خاتمہ کی کوششیں مزید پیچیدہ اور مشکل ہوتی جارہی ہیں۔


1921ء میں پیرس میں پہلی مرتبہ تپ دق کا حفاظتی ٹیکہ بی سی جی استعمال کیا گیاجس کے بعد اس بیماری کو قابل علاج قرار دے دیا گیا۔اس سے قبل تک یہ بیماری لاعلاج رہی۔حفاظتی ادویات کی بدولت 1950ء سے1990ء تک اس مہلک بیماری پر کافی حد تک قابو پالیا گیالیکن جب ایچ آئی وی ایڈز اور کورونا کی وباء دنیا میںپھیلنے لگی تو ایک مرتبہ پھر تپ دق نے بھی سر اُٹھا لیا۔

ٹی بی دنیا کے سب سے مہلک متعدی قاتلوں میں سے ایک ہے۔عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ہردن تقریبا 4000افراد،تپ دق کی بیماری میں مبتلا ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ 28000 افراد اس مرض سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تپ دق سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے باعث سال 2000سے اب تک تقریبا63ملین زندگیوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاچکا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق سن 2019 میںدس ملین افراد تپ دق میں مبتلا ہوئے جن میں سے چودہ لاکھ افراد بروقت علاج نہ کروانے کے باعث اپنی جا سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستان میں ہر سال تقریبا پانچ لاکھ افراد تپ دق کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یہ مرض زیادہ تر پسماندہ علاقوں کے رہنے والوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں غربت،بھوک ، افلاس، آلودہ ماحول اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی کمی پائی جاتی ہے۔

تپ دق یا ٹی بی ان انسانوں میں بھی زیادہ پائی گئی ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔بدقسمتی سے دنیا کے کسی بھی ملک میں ابھی تک اس مہلک بیماری کامکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔صحت کے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2016ء میں دس اعشاریہ سات ملین لوگ ٹی بی میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک اعشاریہ سات ملین لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔دنیا بھر کے ٹی بی کے مریضوں کی شرح نسبت کے مقابلے میںپاکستان سمیت سات ممالک بھارت ،نائیجیریا،ساؤتھ افریقہ ،چین اورانڈونیشیامیں چونسٹھ فیصد مریض پائے جاتے ہیں جن میں بھارت سرفہرست ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے موجودہ سال کے آخر تک دنیا بھر میںاس مہلک مرض کے مکمل خاتمہ کا تہیہ کر رکھا ہے۔اس سلسلے میں عالمی سطح پر بھرپور اقدامات کئے گئے ہیں جن میں تپ دق کے مرض سے متعلق ادویات کی فراہمی، عام لوگوں میں آگاہی پروگرام،ترقی پذیر ممالک کو اس مرض کی روک تھام و علاج سے متعلق خصوصی فنڈز کی فراہمی اور رہنمائی وغیرہ شامل ہیں۔
کورونا اور تپ دق کا وائرس چونکہ انسانی پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے اس لئے دونوں بیماریوں کی کچھ علامات ملتی جلتی ہیں ۔

تپ دق اب ایک لاعلاج بیماری نہیں رہی،اس کا علاج موجودہے جسے اختیار کرکے مریض موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتا ہے لیکن کورونا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا اگرچہ کامیاب تجربات کے بعداس کی ویکسین تیار ہوچکی ہے اوردنیا بھر میں کورونا ویکسین لگانے کا عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔کورونا اور تپ دق ، دونوں بیماریوں کا حملہ چونکہ پھیپھڑوں پر ہوتا ہے اس لئے صحت کے کچھ ماہرین نے تپ دق کی ویکسین سے کوروناکے مریضوں پرتجربات بھی کئے جس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمدہوئے۔

پاکستان میں تپ دق کے علاج،ٹیسٹ اور مفت ادویات کی فراہمی کے باوجود تپ دق کے بہت سے مریض اپنا علاج نہیں کرواتے یا زیر علاج مریض اپنا کورس مکمل نہیں کرپاتے جس کے نتیجہ میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس لئے اگر کوئی فرد مسلسل بخار،تین سے چار ہفتے تک کھانسی کا کم نہ ہونا،بھوک میں کمی اور وزن میںکمی کا شکار ہوجائے تو اسے فورا طبی معائنہ کراناچاہیئے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اسے کورونا ہے یا تپ دق۔

تپ دق اب مکمل قابل علاج مرض ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علاج جلد شروع ہوجائے ۔علاج میں تاخیر یا نامکمل علاج کی صورت میں ٹی بی کا جرثومہ انسانی پھیپھڑوں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر حصوں میں پھیل کر موت کا سبب بن جاتا ہے ۔تپ دق میں مبتلا مریض کوعام انسانوں کی نسبت کورونا لاحق ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں اس لئے اب تپ دق کا خاتمہ ازحد ضروری ہوگیا ہے۔پاکستان کو تپ دق سے پاک ملک بنانے کے لئے اس بیماری میں مبتلا افراد کو ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے علاج پر پوری توجہ دینی چاہئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :