ریاست کہاں ہے؟

بدھ 15 مئی 2019

Dr Lubna Zaheer

ڈاکٹر لبنی ظہیر

چند دن قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بیان میڈیا کی زینت بنا۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران جج صاحب نے فرمایا کہ " اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ اوردھوکہ دینے کا ہے"۔ جناب چیف جسٹس نے بالکل درست نشاندہی کی ہے۔ جھوٹ جیسی برائی (جسکی اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے ممانعت فرمائی ہے) ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔اسی طرح دھوکہ دہی،جعلسازی اور فریب کاری کا نا سور ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔

کم وبیش تمام شعبوں میں یہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔
مثال کے طور پر آج کل چینی باشندوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی کا معاملہ میڈیا پر زیر بحث ہے۔ غیر ملکی میڈیا میں بھی اس اسکینڈل کے چرچے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے تقریبا دو درجن چینی باشندے گرفتار کیے ہیں، جو پاکستانی لڑکیوں کو شادی کا جھانسا دے کر چین لے جاتے اور وہاں انکے اعضاء اور جسم فروشی میں ملوث تھے۔

(جاری ہے)

انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ گھناونا دھندا مقامی ایجنٹوں (پاکستانیوں) کی مدد سے جاری تھا۔ اسی طرح چند دن پہلے کی خبر ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں " ڈبل شاہ " کی طرح کا ایک کیس " اسپیڈو بائیک اسکیم " منظر عام پر آیا ہے۔ ابھی تک ڈھائی سو سے زائد متاثرہ افراد سامنے آئے ہیں جنہوں نے اپنی رقم دوگنی کرنے کے لالچ میں لاکھوں روپے اس اسکیم میں لگائے تھے۔

یہ تو صرف دو خبریں ہیں۔ایسی کئی وارداتوں کی خبریں آئے روز ہماری نظروں سے گزرتی ہیں۔
 دھوکہ دہی کا رجحان شعبہ تعلیم میں بھی عام ہے۔ خاص طور پر ہائر ایجوکیشن سیکٹر میں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور کالجز جعلسازی میں ملوث ہوتے ہیں۔ والدین لاکھوں روپیہ فیس ادا کر کے اپنے بچوں کو داخلہ دلواتے ہیں۔ یہ نام نہاد تعلیمی ادارے نو جوانوں کا روپیہ اور قیمتی وقت ضائع کرنے کے بعد انہیں ڈگری کے نام پر بے مصرف کاغذ کا ٹکرا تھما دیتے ہیں۔

وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر بلیک لسٹ تعلیمی اداروں کی ایک فہرست آویزاں کر رکھی ہے۔ وقتا فوقتا میڈیا میں اشتہارات کے ذریعے بھی عوام الناس کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ اسکے باوجود صورتحال میں خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکی۔بلیک لسٹ تعلیمی اداروں میں بہت سے ادارے نامور سیاسی و سماجی شخصیات کی زیر سرپرستی یا زیر ملکیت ہیں۔

ایسے میں انہیں کام کرنے سے روکنا کوئی آسان معاملہ نہیں۔ یوں بھی ان بوگس تعلیمی اداروں کو بند کروانا ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کام نہیں ہے۔ متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے بہت سے جعلی ادارے برسوں سے تعلیم فروشی میں مصروف ہیں۔ ان میں جعلی لاء کالجز بھی ہیں ، جو قانون کی غیر قانونی ڈگریاں بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح جعلی میڈیکل کالجز ہیں، جو پی۔

ایم۔ڈی۔سی سے اجازت نامہ (NOC) حاصل کیے بغیر قائم ہوتے ہیں۔ کروڑوں روپیہ فیس وصولتے اور طمطراق سے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بوگس ڈگریاں جاری کرتے اور جعلی ڈاکٹرز مارکیٹ میں سپلائی کر کے مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں ۔ مگر بہت کم ایسا ہوا کہ کوئی جعلی میڈیکل کالج بند کیا گیا ہو۔ لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کا ایسا ہی کاروبار جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریاں بھی کر تی ہیں۔

ظلم اور بے حسی کی انتہا دیکھیے کہ جان بچانے والی جعلی ادویات تک تیار کی جاتی ہیں۔ اسکے باوجود کسی کو ان فیکٹریوں کے مالکان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کم ہی ہوتی ہے۔
برسوں سے ہم ایسی خبریں بھی سنتے ہیں کہ بیرون ملک نوکری یا تعلیمی داخلے کا جھانسا دے کرخواہشمندوں سے لاکھوں روپے بٹورلئے جاتے ہیں۔ اسکے بعد ایجنٹ مال سمیٹ کر فرارہو جاتے ہیں۔

یا پھر غیر قانونی طریقوں سے پاکستانیوں کو سرحد پار کروانے کی کو شش کی جاتی ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ بند کنٹینروں میں دم گھٹنے سے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یا کشتی الٹنے سے ہلاکتوں کی خبریں آتی ہیں۔ اکثر و بیشتر ایسے افراد کسی ملک کی سرحد عبور کرتے ہوئے گرفتار ہوجاتے ہیں۔ایک انگریزی روزنامے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تقریبا گیارہ ہزار پاکستانی دیگر ممالک کی جیلوں میں قید ہیں، مگر ہماری ریاست کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔

( سعودی شہزادے کی پاکستان آمد پر سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی کا جو اعلان ہوا تھا اور جسکی خوب تشہیر کی گئی تھی۔ وہ وعدہ تاحال تکمیل کا منتظر ہے)۔ ہمارے ہاں بہت سی جعلی اور غیر رجسٹرڈ ہاوسنگ سوسائٹیاں بھی موجود ہیں۔اپنا گھر بنانے کے آرزومند اپنی عمر بھر کی پونجی ان منصوبوں میں جھونک دیتے ہیں۔ اور آخرمیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ فریب کاری کا شکار ہو گئے ہیں۔

حج عمرے جیسے مقدس معاملات بھی فریب کاری سے مستثنی نہیں۔ اللہ کے گھر کی زیارت کروانے کے نام پر لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں اور عین وقت پر لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فراڈ کا شکار ہو گئے ہیں۔ جعلی پیر اور عاملوں کے قصے بھی معمول کے واقعات ہیں۔ یہ نقلی پیر حاجت مندعوام کے جذبات سے کھیلتے اورانہیں بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔

ان عاملوں کی گرفت بھی کم کم ہی ہوتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب نا جائز دھندے کسی تہہ خانے میں، چھپ چھپا کر نہیں ہوتے۔ بلکہ کھلے عام کیے جاتے ہیں۔ باقاعدہ دفاتر قائم ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے بورڈ آویزاں ہوتے ہیں۔ ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ باقاعدہ رابطہ نمبر درج ہوتے ہیں۔ اسکے باوجود کسی روک ٹوک اور گرفت کے بغیر ایسے لوگ اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔

اگرچہ ان تمام معاملات سے نمٹنے کیلئے ہمارے ہاں ادارے موجود ہیں۔ مگر اداروں کی کارگزاری کا اندازہ لگا لیجیے ، جنکی موجودگی میں یہ تمام کاروبار طمطراق سے جاری و ساری ہیں۔غور طلب بات ہے کہ جب جعلی تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہوتے ہیں۔ جعلی ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں۔ جعلی ڈاکٹراور وکیل مارکیٹ میں بھیجے جاتے ہیں۔جب جعلی پیر اور عامل اپنے اڈے اور دکانیں سجاتے ہیں۔

جب بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائٹیاں لاکھوں کروڑوں روپے کے اشتہارات کے ذریعے سادہ لوح افراد کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ اس وقت ریاست اور متعلقہ ادارے کہاں سو رہے ہوتے ہیں؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ مگر ریاست ان جعلسازوں سے کہیں ذیادہ قوت اور وسائل کی حامل ہوتی ہے۔ متعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں افسران کی کارکردگی جانچنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔

لہذا شعوری لاشعوری طو ر پر افسران سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ متاثرین میں سے کوئی شکایت کرتا ہے تو افسران اس شکایت پر کم ہی کان دھرتے ہیں۔ یا پھر تفتیش کے نام پر متاثرہ فرد ایک عذاب کاشکار ہو جاتا ہے۔لہذا بیشتر متاثرین سمجھتے ہیں کہ پیشیاں بھگتنے سے کہیں بہتر ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔
ضروری ہے کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے ریاست پوری قوت کیساتھ بروئے کار آئے۔

اس ضمن میں اصولی طور پر کوئی فراڈ مینجمنٹ پالیسی وضع ہونی چاہیے۔ تاکہ عوام الناس کو جعلسازی سے بچایا جا سکے۔ اور جعلسازوں کو قانونی شکنجے میں کسا جا سکے۔اسکے لئے مگر نظام قانون و انصاف کو بھی مضبوط بنانا بے حد ضروری ہے۔ غلط کاروں کی فوری گرفت اور سزا کا اہتمام ہو گا تو معاملات خود بخود بہتر ہو تے چلے جائیں گے۔ متعلقہ اداروں اور افسران کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے جوابدہی کا کڑا نظام بھی وضع کرنا ہوگا۔ اگرمناسب اقدامات نہ کیے گئے تو دھوکہ بازی کا سلسلہ مزید پھلتا پھولتا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :