”جہیز“

ہفتہ 3 اپریل 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

ارشاد باری تعالیٰ ہے''ہم نے قرآن عربی میں نازل کیا''اس کے علاوہ نبی اکرم خاتم الانبیاء حضرت محمد کا ارشاد ہے''قرآن میری اپنی زبان میں نازل کیا گیا''یہ بات آپ فخر سے کہا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ زمانہ جاہلیت میں عرب خود کو عربی یعنی عربی زبان والے اور غیر عربوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے۔ اسی لحاظ سے عربی ایک عمدہ اور زندہ زبان ہے ۔

"جاحز" عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں''موت''مگر یہ لفظ اردو،ہندی اور بنگالی زبان میں شادی کے موقع پر لڑکی کو ماں باپ کی طرف سے ملنے والے تحائف کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان تحائف کو جس کسی نے بھی جہیز کا نام دیا ہے میں اسکی عقلمندی اور انسانیت سے محبت کے جذبے کو داد دیتا ہوں۔ ایک عورت کا درد کیا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

جب وہ امید سے ہوتی ہے اور پھر اسکے بعد زچگی کی تکلیف ایسی ہے کہ جیسے جسم کی 20 ہڈیاں ایک ساتھ ٹوٹ جائیں ۔

عورت نسل انسانی کی پہلی تربیت گاہ ہے مگر شادی کے موقع پر اس تربیت گاہ کو لارٹری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ لاٹری خرید کر گھر لائیں گے تو انعام میں کیا کچھ اور کتنا قیمتی نکلے گا۔پہلے پہل تو جہیز کے نام پر فرنیچر وغیرہ دے دینا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ بات فرنیچر سے بہت آگے نکلتی گئی۔ فرنیچر کے بعد الیکٹرونک کا سامان پھر موٹر سائیکل مگر اب تو بات گاڑی، گھر اور بینک بیلنس سے نکل کر لڑکی کی نوکری اور پھر سرکاری نوکری تک جا پہنچی ہے۔

لڑکے کیلئے کاروبار یا ملک سے کہیں باہر نوکری دلوانے کیلئے ویزہ یا اگر لڑکی کے بھائی یا باپ کہیں باہر ملازمت کرتے ہیں تو بھی لڑکے کو وہاں سیٹل کروانے کی شرائط پر رشتے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے وہ بیٹے جن کی پیدائش کی خوشی میں ہم پھولے نہیں سماتے، مگر جب انکی شادی کرتے ہیں تو دلہن کے ساتھ موت(جہیز) بھی ہمارے گھروں کی زینت بنتی ہے اور اس پر ہم فخر بھی کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں کئی ایسے واقعات تقریباً روز ہی ہماری نظر سے گزرتے ہیں ۔جہاں لڑکیوں پر جہیز نہ ہونے کی وجہ سے زیادتیاں کی جاتی ہیں۔ ہم بیٹوں کی شادی کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری بھی بیٹیاں ہیں اور جس بیٹے کی شادی کرتے ہوئے ہم دوسروں پر جہیز کا بوجھ ڈال رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے بھی بیٹی سے نوازیں گے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے جہیز اور نکاح نامے میں تبدیلی کا قانون بنانا ایک احسن اقدام ہے مگر اس سب کے ثمرات تب تک حاصل نہیں کیے جا سکتے، جب تک ہم ذہنی طور پر جہیز کو موت مان نہیں لیتے۔

جہیز کی نمائش پر جو پابندی لگائی گئی ہے اس سے غریب اور متوسط طبقے میں کسی حد تک ایسا ہو سکتا ہے کہ امیر لوگ جب نمائش نہیں کریں گے تو حالات بھی آہستہ آہستہ کسی حد تک ٹھیک ہو ہی جائیں گے۔ ہمارا غریب اپنی بیٹی کو جہیز دینے کیلئے اتنا مقروض ہو جاتا ہے کہ اپنی باقی کی ساری عمر قرض اتارتے گزار دیتا ہے۔ جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے تب تک کوئی قانون فائدہ نہیں دے سکتا۔

ہم جس پیغمبر کی امت ہیں۔ کیا کبھی ہم نے ان کی صاحبزای کی شادی پر غور کیا ہے کہ وہ کیسی شادی تھی؟دونوں جہان کے خزانوں کے مالک خاتم الانبیاء نے کیسے اپنی بیٹی کو رخصت فرمایا تھا۔خضرت علی  اولیاء کرام کے سردار نے کیسے زندگی گزاری ؟ہم اشرف المخلوقات ہیں ۔ہمیں اپنی عظمت کو دیکھنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں جیسی نوری،پاکیزہ اور تابعدار مخلوق سے سجدہ کروایا ہے۔

ہم اسی سجدے کو ذہن میں رکھیں تو انسانیت کی معراج حاصل کر سکتے ہیں مگر اس سب کیلئے ہمیں پہلے انسان اور پھر بندہ بننا ہے۔ ورنہ کنواری مجبور آنکھیں ہر باپ کیلئے درد کا سامان ہوں گی۔ بقول شاعر
یہاں جہیز کے بھوکے ہیں ہمیں جہیز بھی دیا کر
یا کسی مفلس کو اے مالک !بیٹی نہ دیا کر۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :