رازِحیات

بدھ 29 دسمبر 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

فرض کریں اگر پوری دنیا میں ایک آواز سنائی دے (وہ آواز اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی بھی ہو سکتی ہے)اور سوال کیا جائے کہ زندگی کیا ہے تو پوری دنیا فوراً اس آواز کی طرف متوجہ ہو گی۔ ہرکوئی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ کوئی افلاطون کے اقوال میں جواب تلاش کرئے گا ،کوئی ارسطو کی لکھی کتابوں کی ورق گردانی کرئیگا تو کوئی سقراط کے کہے الفاظ کی مدد سے اس سوال کا جواب تلاش کرے گا۔

کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اپنی رائے کو ہر کسی کی رائے سے زیادہ اہمیت دیں گے اور کچھ مذہب کو سامنے رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب تلاش کریں گے۔ غرض یہ کہ ہر کوئی سوچ بچار کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی مناسب جواب دینے میں کامیاب ہو مگر سوچنے کی کوشش ہر کوئی کرے گا۔

(جاری ہے)

اس دنیا میں تقریبا اٹھارہ ہزار کے قریب مخلوقات پائی جاتی ہیں تو کیا سبھی مخلوقات اس سوال پر غور کریں گی؟ افلاطون وغیرہ تو انسان ہیں تو کیا باقی اٹھارہ ہزار مخلوقات میں سے بھی کسی نے کوئی اصول اپنائے کوئی کتاب لکھی؟ کسی مخلوق نے کسی دوسری مخلوق کو اپنا غلام بنا کر اس سے فائدہ حاصل کیا؟ کسی مخلوق نے اپنے لیے عبادت گاہیں تعمیر کیں؟ہر گز نہیں ۔

آج زمین اور اس کائنات کو وجود میں آئے ہزاروں برس بیت گئے لیکن سوال کا جواب دینے یا جواب کے بارے سوچنے کا کام صرف انسان ہی کرے گا۔ جب کبھی کوئی آواز سنائی دی تو کائنات میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اسکی طرف متوجہ ضرور ہوں گی۔ کچھ لمحوں کیلئے سب ڈر بھی جائیں گے مگر چند لمحات کے بعد سب بھول کر اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں گے سوائے انسان کے اس وقت دنیا میں سات ارب سے زائد انسان آباد ہیں۔

مگر ان میں سے صرف چند لاکھ یا چند ہزار ہی اس سوال پر غور و فکر کریں گے۔ باقی تمام افراد دوسری مخلوقات کی طرح چند لمحے اس آواز کی طرف متوجہ ہو کر اپنے کاموں میں مشغول ہو جائیں گے۔ اگر ایک عام انسان چند لمحوں کیلئے اس سوال پر غور کرے تو وہ اپنی پیدائش اور موت کو ہی زیادہ اہمیت دے گا وہ کہے گا میں پیدا ہوا، اب سوتا جاگتا کھاتا پیتا ہوں پھر مر جاؤں گا ۔

کیوں پیدا ہوا اس پر وہ غور نہیں کرے گا۔ اپنی زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو گا لیکن اگر وہ گہرائی سے سوچے گا اور یہ تصور کرے گا کہ کہ میری زندگی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے تو میرے بعد میرے گھر والے میری جائیداد کپڑے جوتے یا ضرورت کی اشیاء کہاں جائیں گی، جن چیزوں سے اسے زیادہ محبت ہے۔ ان کے بارے سوچ کروہ مایوسی کا شکار ہونا شروع ہو جائے گا۔

دور قدیم اور جدید کے وہ فلاسفر جنہوں نے زندگی کی حقیقت کے بارے میں آگاہی پیدا کی۔ ان نے انسان کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں دیا ۔یہی وجوہات ہیں کہ اب ہر گزرتے دن دنیا میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ شائد اسی مایوسی کا شکار ایک عالمی شہرت یافتہ گلوکار مائیکل جیکسن بھی تھا اور اسی لیے وہ قانون قدرت سے لڑتا اور الجھتا رہا ایک سو پچاس برس کی زندگی جینے کیلئے وہ اپنی پچاس برس کی زندگی کو بھی تکلیف دہ مراحل سے گزارتا رہا مگر اپنے بعد آنے والوں کے لیے ایک مثال چھوڑ گیا کہ انسان تو مر جاتا ہے مگر اس کا نام اور کام زندہ رہ جاتے ہیں۔

یہ درس اسلام نے سب سے بہتر اور احسن طریقے سے دیا ہے۔ اسلام انسان کو سیکھاتا ہے کہ یہ زندگی محنت کا دوسرانام ہے اور اس کا اصل اجر اس زندگی کے اختتام کے بعد ملے گا۔ اس وقت پوری دنیا کے تمام افراد کسی نہ کسی مذہب کے ماننے والے ہیں اور اگر تمام مذاہب کا مطالعہ کیا جائے تو ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے انسانیت، انسان کیا ہے اس کے بارے قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ" انسان کو ایک بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا گیا ہے" اور انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے دوام حاصل ہے۔

یہ کئی زندگیاں رکھتا ہے، ایک پیدا ہونے سے پہلے، پھر پیدا ہونے سے موت تک، پھر اس کے بعد کی دائمی زندگی مگر سب سے زیادہ اہمیت پیدا ہونے کے بعد سے موت تک کی ہے کیونکہ اس میں انسان کو اختیار دیاگیا ہے۔ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں انسان آزاد ہے اور یہی وہ حصہ ہے جس میں انسان پہلے فیصلہ اور پھر تگ و دو کرتا ہے۔ اس کوشش کے نتیجے میں بھی انسان کو ایک زندگی ملتی ہے جسے اصل زندگی کہا جاتا ہے۔

یہ زندگی انسان کو مرنے کے بعد بھی اس دنیا میں زندہ رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ صحابہ اکرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی کے بارے سوال کیا "توآپ نے مٹی ہاتھ میں لے کر اسے پھونک مار کر اڑا دیا اور فرمایا یہ ہے زندگی" ۔ہم اکثر ایک جملہ سنتے ہیں کہ ''اوقات میں رہو" لوگ اسے گالی سمجھتے ہیں لیکن در حقیقت یہ نصیحت ہوتی ہے۔ کیونکہ اوقات وقت کی جمع ہے اور انسان کی عمر کو وقت سے ماپا جاتا ہے اور اس سے مراد اپنی عمر کے مطابق گفتگو کرنا ہوتا ہے۔

زندگی اور عمرہمیشہ مخالف سمت کے مسافر ہیں۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جب عمر بڑھتی ہے تو زندگی کم ہوتی ہے اور پھر ''ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے''اب یہ انسان پر ہے کہ وہ ہر لمحہ کم ہوتی زندگی کو کیسے امر کرتا ہے ۔کیسے اپنے نام یا کام کو زندہ رکھتا ہے۔ کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے نام سے توعام لوگ واقف نہیں ہوتے مگر ان کی محنت سے ایجادات اور دریافت سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں اور آگے آنے والے بھی فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔

اگر پوری زمین کا جائزہ لیا جائے تو انسان کے علاوہ اٹھارہ ہزار مخلوقات میں ہر ایک کوئی نہ کوئی کام کرتی ہے حتیٰ کہ ہمیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے والے جراثیم بھی ہر وقت مردہ اجسام کی توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں، اگر وہ نہ ہوں تو اب تک پوری زمین مردہ اجسام سے بھری ہو تو اگر قدرت نے نظر نہ آنے والے کیڑوں کو بھی بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیا وہ ہر پل انسان کی خدمت میں مصروف ہیں تو کیا انسان جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ،جس کی ہدایت کیلئے چار الہامی کتابیں نازل کی گئیں۔

بے شمار انبیاء اکرام بھیجے گئے ۔اسکی سانسیں بے مقصد نہیں ہو سکتیں۔ انسان کا اصل کام جانداروں کی خدمت کرنا ہے مگر دوسرے جانداروں کے بر عکس انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کام کرتا ہے یا جیسے باقی مخلوقات کی طرح یہ سوچنا ہے کہ مجھے کھانا ہے کھا کر آرام کرنا ہے اور اپنی نسل میں اضافہ کرنا ہے اور جو انسان صرف اسی کو زندگی کہے۔

اس میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ حیوانی جذبات ہیں دنیا میں زندگی کی دو اقسام ہیں۔ ایک اپنی خواہشات کے زیر اثر رہنا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق جینا۔انسان جب سوچنے سمجھنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو وہ چاہتا ہے اسکے بال کالے رہیں مگر وہ سفید ہو جاتے ہیں ،وہ چاہتا ہے نظر کمزور نہ ہو مگر ہو جاتی ہے تو جب انسان کو اپنے جسم پر اختیار نہیں تو اسے اپنی سوچ بھی اسی خالق کے زیر اثر کر دینی چاہیے جس کے زیر اثر اس کا جسم ہے۔

انسان کی زندگی کا اصل مقصد انسان سمیت تمام مخلوقات کی خدمت ہے ۔چاہے اس کو شش میں وہ خود فنا ہی کیوں نہ ہو جائے۔ فنا میں ہی بقائے ہستی کا راز مضمر ہے کیونکہ بیج اگر فنا نہ ہو تو کبھی درخت نہیں بن سکتا اور اس چھوٹے سے بیج کا فنا ہونا کیا کچھ دیتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں اور یہی زندگی ہے۔ بقول شاعر
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :