چھوٹا منہ بڑی بات

ہفتہ 2 اکتوبر 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

محاورے معاشرے میں پائے جانے والے مسائل اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔زیادہ تر حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔میں کم عمری سے ہی اکثر اس محاورے پر سوچا کرتا تھا کہ ''منہ چھوٹا اور بات بڑی کیسے ہوتی ہو گی''کیونکہ زندگی میں زیادہ تر واسطہ بڑے چہرے والے اور چھوٹی بات کرنے والوں سے پڑا،پر اس محاورے کی حقیقت میڈیکل کی ایک کانفرنس میں شریک ہونے کے بعد جہاں کراچی میں پورے پاکستان کے مایہ ناز ترین اور بین الاقوامی ماہر امراض دل کارڈیالوجسٹ حضرات کے بلند فشار خون (Hypertension)کے اوپر لیکچرز سننے کے بعد اسکا اصل ادراک ہوا کیونکہ مجھ جیسے عام آدمی اور کم علم شخصیت کے منہ سے بلڈ پریشر اور اس کی تباہ کاریوں کا حال جاننا بھی اس اس محاورے جیسا ہی ہے۔

پاکستان میں اس وقت %33 آبادی جسکی عمر 40 سال سے زیادہ ہے بلڈ پریشر کی مریض ہے۔

(جاری ہے)

اس بیماری کی وجہ سے آنکھوں،دل،گردے،فالج اور خون کی نالیوں کے متاثر ہونے کا امکان%50بڑھ جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی شخص سگریٹ نوشی یا حقہ نوشی کی بری عادت میں مبتلا ہے تو خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے۔BP کی وجہ سے دل کے دورے سے فالج گرتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال%14 BP کے مریض گردے کے عارضے میں لا حق ہو جاتے ہیں۔

یہ تمام حیران کن اور تکلیف دہ باتیں اس کانفرنس میں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے یہ پیغام لوگوں تک پہنچانے کی ٹھان لی کہ بلڈ پریشر کو پاکستان میں شکست دے کر دم لیں گے۔ اس کے بچاؤ کیلئے چند ضروری عادات میں روزانہ ورزش کرنا،سگریٹ،تمباکو،حقہ نوشی کا خاتمہ،نمک اور تلی ہوئی اشیاء کا کم سے کم استعمال،کولیسٹرول اور وزن کو قابو کرنا شامل ہیں۔

کانفرنس میں آنے کیلئے لاہور سے کراچی کی فلائٹ کے دوران حسب ِعادت مطالعہ کتاب کا شوق بھی پورا کیا۔ اس دفعہ اپنی محبوب کتاب ''زاویہ''کو پڑھنا دوبارہ شروع کیا تو اشفاق احمد صاحب کے زریں اقوال اور سنہری باتیں دل میں گھر کر گئیں جیسے ہم سب نوجوان ڈاکٹرز کو دل کی بیماریوں سے بچاؤ کے بندوبست کیلئے اقدامات کرنے کا جذبہ اور احساس اس کانفرنس سے پیدا ہوا ویسے ہی احساس کے متعلق بابا جی اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ" اک دفعہ جب میں سندھ میں کسی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو ایک روز سڑک پار کرتے ہوئے ایک کتے کے چھوٹے بچے کو کار کی ٹکر لگی اور وہ آدھ موا (آدھا مرا ہوا) ہوگیا۔

بہت سے لوگ آتے جاتے دیکھتے اور چل پڑتے مگر 2 سکول کے چھوٹے بچوں نے اسکو اٹھایا اور سڑک کے کنارے لے گئے اور وہ کتے کے بچے کو سہلانے لگے ۔کتے کے بچے نے ان بچوں کو دیکھا اور آخری سانس بھری جیسے ہی وہ جان سے گیا بچوں کی ننھی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پاس کھڑا ایک فقیر بولا کہ یہ اب اس جہان کی زندگی سے دوسرے جہان کی زندگی میں چلا گیا ہے اور اشفاق صاحب فرماتے ہیں میں اس مجذوب اور اللہ والے فقیر کی بات سن کر حیران ہوا اور کہا نہیں بزرگوار یہ تو مر گیا ہے۔

اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ وہ فقیر بولا نہیں یہ اس جہان سے دوسرے جہان گیا ہے، مر تو وہ تب ہی گیا تھا جب اس کو چوٹ لگی اور لوگ آس پاس سے رُکے بنا مدد کیے بنا احساس کیے بنا گزرتے رہے۔ احساس کی موت ہی اصل موت ہے ۔بڑے لوگوں کی بات کو مجھ جیسے نیم خواندہ کے قلم کی تحریر بنانا یقیناً''چھوٹا منہ بڑی بات''کے مترادف ہی ہے ۔خدا ہمیں احساس کی دولت سے نوازے(آمین)۔ (بقول شاعر)
متاعِ زیست ہے جاناں
یہی غربت یہی دولت
کبھی کاسہ تیرا لہجہ
کبھی بخشش تیری باتیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :