کچھ عرصہ قبل اپنے ایک محترم سینئر دوست ڈاکٹر اسد امتیاز صاحب کی تحریر نظر سے گزری انہو ں نے اپنے کیرئیر کا ایک واقعہ سنایا کہتے ہیں نئی نئی ہاؤس جاب شروع کی تھی وارڈ میں ایک ستر سالہ بزرگ کو پیشاب میں روکاوٹ کی وجہ سے داخل کیا گیا تھا اور نالی لگانے کا آرڈر ہوا تو وہ بزرگ بڑے مشفقانہ انداز میں بولے "پتر جے توں سکولے جا کہ چار جماعتاں پڑھ لیندا تے ایہوجے کم تے نہ کرنے پیندے "(اگر تم سکول جا کر چار جماعتیں پڑھ لیتے تو ایسے کام تو نہ کرنے پڑتے )یہ تحریر پڑھتے ہوئے جہاں ان بزرگ کی معصومیت اور شفقت پر ہنسی آئی وہیں اس تحریر نے میرے ذہن کی بہت سی کھڑکیاں کھول دیں کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے ہونے کا معیار کیاہے ؟مریض کو خوراک کی نالی پاس کرنا ایک مشکل کام ہے جبکہ پیشاب کی نالی پاس کرنا ایک مشکل ترین اور پچیدہ کام ہے مگران بزرگ کی نظر میں یہ ایک پڑھے لکھے شخص کی بجائے ایک جاہل آدمی کا کام ہے ۔
(جاری ہے)
مطلب اگر ہم میٹرک یا ایف اے کر کے کسی دفتر میں کلرک یا بابوبن کے بیٹھ جائیں تو یہ ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خدمت کرنے سے بہتر ہے۔ ڈاکٹروں کو تو پوری زندگی بیمار اور بے بس لوگوں میں گزارنی پڑتی ہے۔ کسی کو قہہ آ رہی ہے ،کسی کا پیٹ خراب ہے، کسی کا خون بہہ رہا ہے ،کسی کا زخم خراب ہوکر پیپ پڑ چکی ہے ،کسی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ دل کا آپریشن کرتے ہوئے 12گھنٹے حفاظتی لباس پہن کر منہ پر ماسک لگا کر کھڑے رہنا پڑتا ہے ایسے ہی انجینئر وغیرہ حفاظتی لباس پہن کر سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ایٹم بم بنایا ہے وہ یہ کام آفس میں کرسی پر بیٹھ کر کرتے رہے ۔وہ گندھک اورایسے ہی بے شمار بدبودار کیمیکل کے ساتھ کام کرتے رہے ۔وہ ان کا ہنر ہے۔ ان بزرگ کے خیالات کا جائزہ لیتے ہوئے جب میں اپنے ملک کی پسماندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو وہی خیالات وجوہات نظر آتے ہیں۔ ہم لوگ بابو بننا چاہتے ہیں ہنر مند نہیں اوراسی بابوبننے کے شوق نے ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے دور کر رکھا ہے ۔
آج اگر میں اور آپ پاکستان کے کسی چھوٹے سے چھوٹے بازار سے لیکر بہت بڑے شاپنگ مال میں چلے جائیں تو آپ کو چولہا جلانے والا لائٹر بھی پاکستانی نظر نہیں آئے گا اوردکان دار بڑے فخر سے کہے گا کہ یہ چائنہ کاہے ۔ایک وقت تھا باٹا اور سروس کا جوتا اعتماد کا دوسرا نام تھا ۔لوگ بڑے بچے کیلئے جوتا خریدتے تھے تو باری باری سب بہن بھائی وہی جوتا پہنتے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ ان برینڈ کے جوتوں میں استعمال ہونے والا لیدرآج بھی اسی کوالٹی کا ہے مگر جو سول (تلا )استعمال کیا جاتا ہے وہ چائنہ کا ہے اور چند دن بعد ٹکرے ٹکرے ہو جاتا ہے ۔اور اس پر ستم یہ کہ ماحول کو گندا کرنے میں بھی بھر پور کردار ادا کررہا ہے۔ایک وقت تھا جب ہم اپنے جوتے گلی میں ٹین ڈبہ لینے والے کو فروخت کر دیا کرتے تھے مگر اب ان چائنہ کے جوتوں کو ری سائیکل بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اگر آگ لگا کر انکو جلایا جائے تو ایک جوتے سے اتنا دھواں برآمد ہوتا ہے جتناایک فیکٹری کی چمنی سے نکلتا ہے ۔کیا اب ہم اسقدر نااہل ہو چکے ہیں کہ اپنے لیے جوتے تک تیار نہیں کر سکتے یاپھر ہم موچی بننے کی بجائے بابو بننا پسند کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر گلی محلے میں انگریزی سیکھانے کیلئے تو سکول موجود ہیں مگر ٹیکنیکل ایجوکیشن کیلئے پورے پاکستان میں 22کروڑ عوام کیلئے صرف 4یا 5ادارے ہیں اور اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم بابوبنناچاہتے ہیں ۔
ہمارے سیاستدان ہم عوام سے بہت بہتر ہیں۔ میٹرو بس ،اورنج لائن ٹرین اور بی -آر-ٹی بس جیسے منصوبے بنا کر اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر رہے ہیں جبکہ ہم عوام اپنا حال اچھا بنانے کی کوشش میں ہیں ۔آج تک 22کروڑ افراد کے ہجوم میں سے کسی نے سیاستدانوں سے یہ کہا ہے کہ آپ نے اگر سیاست کرنی ہے تو میٹرو،اورنج لائن اور بی-آر-ٹی پر نہیں ان کو بنانے والے کارخانوں پر سیاست کریں۔
ہم ان آرام دہ سفری سہولیات کے بغیر گزارہ کر لیں گے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ان سہولیات سے استفادہ حاصل کریں ۔ان سہولیات کو ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو دینا چاہتے ہیں ۔ان منصوبوں سے میں تو استفادہ کر سکتا ہوں مگر میری بیٹی رائحہ کے جوان ہونے تک یہ تمام منصوبے کھٹارہ بن چکے ہوں گے۔ رہی بات ان کو دوبارہ بنانے کی تو یہ منصوبے پہلے ہی قرض بلکہ سود ے پر قرض لے کر بنائے گئے ہیں اگر پاکستان کا نام گرے سے بلیک لسٹ ہو گیا تو پھر کیا ہو گا یہ وقت بتا ہی دے گا میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔بقول شاعر
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور