ماں بولی

بدھ 3 نومبر 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

مطالعہ انسان کی ایسی خصوصیت جو سوائے انسان کے کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ایسے ہی قلم بھی ایک ایسی خاص نعمت ہے جسکا استعمال آج تک کسی دوسری مخلوق نے نہیں کیا اور شاید تاقیامت کر بھی نہ سکیں گی کیونکہ انکے پاس اتنا شعور ہی نہیں ۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انکے ہاتھ میں قلم آ جائے تو اسکی روشنائی ہیرے اور جواہرات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

ایسی ہی کئی شخصیات پاکستان میں بھی ہیں مستنصر حسین تارڑ بھی ان میں سے ایک ہیں ۔تارڑ صاحب کا کہنا ہے کہ ایک عالمی شہرت یافتہ روسی شاعر رسول حمزہ توف نے مجھے اپنے ملک کی ثقافت اور اپنی مٹی سے محبت کرنا سیکھائی۔رسول حمزہ توف کا تعلق داغستان سے ہے ان کی مادری زبان آوار ہے۔ انکے گاؤں میں ایک ایسی گالی جس پر قتل ہو جاتے ہیں کہ''تو جا اپنی مادری زبان کو بھول جا'' جبکہ آوار ایک ایسی زبان ہے جسے تقریبا ستر ہزار لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں مگر وہ اپنی زبان سے شدید محبت کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ تحریر پڑھ کر جب اپنے گریبان میں جھانکا تو عزیزی کی طرح بنیان ہی پہنی ہوئی نظر آئی۔ اگر اس وقت پوری دنیا کا جائزہ لیا جائے توچین دنیا کی سب سے زیادہ تیزی اور ترقی کرنے والی قوم ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں جتنی تیزی سے چین نے ترقی کی ہے،دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ چین وہ واحد قوم ہے جس نے ایک بھی ٹیکنالوجی کسی دوسرے ملک سے درآمد نہیں کی۔

سب کچھ اپنے ہاتھ سے بنایا ہے ۔چین کے لوگ اپنی زبان سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں وہاں زیادہ ترلوگوں کو انگریزی زبان نہیں آتی جبکہ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کی سند انگریزی بولنا ہے۔جبکہ انگریزی صرف بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے ہمارے تین مرتبہ کے وزیراعظم پرچی والا کے نام سے مشہور ہیں۔ سابق وزیر خزانہ کو بی بی سی لندن نے انٹرویو کیلئے بلایا تو انگریزی غلط بول کر دنیا میں اپنا تماشا بنوایا۔

پاکستان کے علاوہ دنیا کی دوسری نظریاتی مملکت اسرائیل کو اگر دیکھیں تو وہاں آپکو ہر شخص عبرانی زبان بولتا نظر آئے گا اور وہ لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ایک قدیم اور اپنی زبان رکھنے والی قوم ہے۔ جب سے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے تو اسرائیل نے عرب امارات ایئرلائن میں عبرانی زبان میں ویب سائٹ بھی متعارف کروائی ہے حالانکہ موجودہ عبرانی کوئی قدیم زبان نہیں ہے اسکے شاید چند الفاظ یا پھر رسم الخط وہ پرانا ہے باقی سب نیا ہے۔

جرمنی ٹیکنالوجی کا بادشاہ اور ترقی یافتہ ملک ہے ۔ جرمنی کے لوگ انگریزی زبان سے نفرت کرتے ہیں۔ کرونا سے پہلے اقوام متحدہ میں ہونے والے اجلاس میں ہم نے برادر ملک ترکی کے وزیراعظم کو دیکھا وہ حافظ قرآن ہیں اور انگریزی نہیں بول سکتے مگر انہوں نے اسے اپنے لیے شرمندگی نہیں سمجھا اور نہ ہی کسی سے پرچیاں لکھوائیں نہ ہی غلط انگریزی بول کر تماشا بنوایا۔

انہوں نے اپنے ساتھ مترجم رکھی ہوئی تھی جو ایک خاتون تھیں انکے لباس نے دنیا کو حیرت میں ڈالا۔ تب ترکی نے عالمی دنیا میں بیک وقت 3 چیزوں کی نمائندگی کی۔ ایک یہ کہ وہ اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں۔ دوسرا وہاں کی عورت تعلیم یافتہ اور طاقتور ہے تیسرا وہاں کی عورت اسلام اور اپنی ترک ثقافت کے ساتھ بہت مظبوطی سے جڑی ہے۔ خاتون کا لباس اسلامی اور ترک ثقافت کا حسین امتزاج تھا۔

ہم اپنی بہت باوقار سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو دیکھیں تو ایک ہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ وہ واقعی بے نظیر تھیں۔ انکا لباس اسلام اور پاکستان کی نمائندگی کرتا تھا۔ انہوں نے یورپ سے تعلیم حاصل کی انکی اردو اچھی نہیں تھی مگر وہ پھر بھی عوام سے اردو میں بات کرتی تھیں اور وہ اپنی اردو کو ٹھیک کرنے کی بھی کوشش کرتی تھیں۔ ہمارے ملک کی ایک بہت خوبصورت جنت نظیر ریاست آزاد جموں و کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار سکندر حیات خان(اللہ تعالیٰ انکو صحت کاملہ عطا فرمائے۔

آمین)۔ایک مرتبہ وہیں آزاد کشمیر کالج کی تقریب میں مہمان تھے۔وہاں ایک خاتون نے انگریزی میں تقریر کی۔ جب وہ سٹیج پر آئے تو کہنے لگے ،خاتون نے انگریزی میں بڑی اچھی تقریر کی ہے لیکن اگر یہ اردو میں تقریر کرتیں تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔ ہمیں اگر ترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو ہمیں اپنی زبان اپنی ثقافت سے محبت نہیں عشق کرنا ہو گا تبھی اپنی شناخت قائم رکھ سکیں گے۔ ہمارے بچوں کو انگریزی زبان سیکھنے میں جو وقت صرف کرنا پڑتا ہے اس وقت اور محنت کو وہ کسی اور جانب استعمال کر کے ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔انگریزی زبان ترقی کیلئے اہم ضرور ہے مگر ناگزیرنہیں۔بقول شاعر
گیسوئے اردوابھی منت پذیر شافہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :