"بچپن کا رمضان"

اتوار 10 مئی 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

بچپن کا تصور اور یادیں ہمیشہ دل و دماغ پر خوشگوار اثرات چھوڑتی ہیں . ہر شخص کے ذہن میں اس کا بچپن حسین یا تلخ یادوں کے ساتھ  محفوظ رہتا ہے. یہ بے فکری کا دور ہوتا ہے. بڑے ہونے کے بعد دنیا جہاں کے مسئلے مسائل کے ڈھیر زندگی کو مشکل سے مشکل ترین بناتے ہیں مگر یہ حسین یادیں تلخیوں کے ساتھ چہروں کی مسکراہٹ کا باعث بنتی ہیں.
یہا ں ٹاپک ہے بچپن اور رمضان کا.

میرے ذہن میں بھی رمضان کے حوالے سے کئی کھٹی میٹھی یادیں بسی ہوئی ہیں جو بسا اوقات تلخی ایام کے اثرات کو معدوم کرتی ہیں. یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں دوسری جماعت میں تھی اور نانا والوں کے ساتھ کوئٹہ میں رہتی تھی.رمضان کا مہینہ تھا اور گرمیاں اپنے عروج پر تھیں. گھر میں سب کے دیکھا دیکھی میں نے بھی روزہ رکھنے کی ضد کی.ایک دو رات جب خالہ نے نہیں اٹھایا تو میں بہت روئی.

اگلی رات جب سب خالائیں سحری تک جاگ رہی تھیں.تو میں بھی ان کے ساتھ جاگتی رہی تاکہ اٹھانے کا احسان نہ لیا جائے. مگر عین سحری کے ٹائم آنکھ لگ گئی اور صبح پھر وہی رونا دھونا لگایا کہ "مجھ کیوں نہیں اٹھایا". خیر مجبور ہوکر اگلے دن خالہ نے مجھے سحری میں اٹھا ہی دیا. میں نے خوشی خوشی سحری کرنے کے بعد روزے کی نیت کرلی. ساتھ ہی میرے سب سے چھوٹے ماموں اور خالہ کا بھی روزہ تھا.

سخت گرمی کی وجہ سے دن گزارنا مشکل ہورہا تھا . بھوک اور پیاس بھی اپنے عروج پر تھے . ہم تینوں نے سوچا کہ ہم گنتی کرکے ٹائم پاس کریں گے. سب نے اپنے تئیں باری باری ایک سے ساٹھ تک گنتی مکمل کی. ہمارے حساب سے ہم تین گھنٹے گزار چکے تھے مگر جب گھڑی میں ٹائم دیکھا تو صرف آدھا گھنٹہ اوپر ہوا تھا.سر پر تو جیسے منوں مٹی پڑ گئی . اس کے بعد معلوم نہیں کہ باقی دن کیسے گزرا.
اسی طرح ایک دن پھر روزہ تھا.

نانا کا نیا گھر تیار ہوچکا تھا. اسی سلسلے میں شفٹنگ ہورہی تھی. گھر کے کچھ بڑے افراد  پہلے سے نئے گھر میں چلے گئے تاکہ وہاں سامان کی سیٹنگ کریں. سامان کے بعد سب سے آخری شفٹ میں ہم بچوں کو لے جانے کا پروگرام تھا. ہم سب منتظر تھے کہ کب ہماری باری آئے گی. روزہ کھلنے میں صرف ایک گھنٹہ رہ گیا تھا.ایک تو انتظار اور دوسرا گرمی کی وجہ سے شدید پیاس , ہماری حالت بری ہورہی تھی.

ہم ہر پانچ منٹ کے بعد چہرے اور سر پر پانی ڈال رہے تھے . آخر میں برداشت کی ساری حدیں ختم ہوئیں. ہم نے خالہ سے نظر چرا کر ,سر اور چہرے پر پانی ڈالنے کے بہانے منہ میں بھی پانی کے ایک دو گھونٹ بھرے اور فریش ہوگئی.
بچپن کی ان چند بے وقوفیوں کے ساتھ وقت پر لگا کر اڑ گیا.اور ہم بھی بڑے ہوگئے. اب میں فرسٹ ائیر میں تھی جب سب سے چھوٹے بھائی نے ضد کرکے روزہ رکھا.

ہمیں اپنی بے وقوفیاں تو اچھی طرح یاد تھیں, اس لیے سب چھوٹے بھائی کے روزے کے محافظ بن گئے. اس کو ایک لمحے کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑا کہ کہیں وہ بھی ہماری والی حرکت نہ کرے. مگر ہم حیران تھے کہ افطاری کے قریب ہمارا روزے سے برا حال تھا اور عمران چھوٹا بچہ ہونے کے باوجود اتنا فریش کیسے لگ رہا تھا. سب نے مل کر اس معصوم سے تفتیش شروع کی کہ اس نے اس دوران کچھ کھا پیا تو نہیں ہے.

جب وہ نہیں مانا تو اسے قیامت کے خوفناک عذاب سے ڈرایا, دھمکایا تب جا کے اس بے چارے نے اعتراف جرم کرلیا .مگر اس وقت ہم ٹہرے تفتیشی آفیسر اس سے طریقہ واردات بھی اگلوا ہی لیا. وہ معصومیت سے بولا کہ  ساجد کی امی ( ہمارے ہمسائے تھے,امی نے کسی کام سے اسے وہاں بھیجا تھا) نے مجھ سے پوچھا کہ "بیٹا روزہ ہے" .تو میں نے بتایا "جی آنٹی گھر پر روزہ ہے".
ساجد کی امی نے کہا" بچہ گھر میں روزہ ہے یہاں تو نہیں ہے, یہاں آپ کھانا کھا سکتے ہو". انہوں نے مجھے اور ساجد کو کھانا کھلایا. اعتراف جرم سن کر ہم سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے  کہ کیسے وہ اکیلا چھوٹا بچہ ہم سب بڑے بہن بھائیوں پر بھاری نکلا�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :