ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی

بدھ 6 جنوری 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

تعلیم اور شعور جامع و وسیع معنی رکھنے والے دو ایسے الفاظ ہیں جو آپس میں مترادف نہیں ہیں مگر ہم نے انہیں ایک دوسرے سے منسلک کر لیا ہے . "تعلیم " عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے لفظی معنی ہیں واقفیت حاصل کرنا,  نشونما یا تربیت کرنا,   جاننا یا آگاہی حاصل کرنا ہیں.  اصطلاحی حوالے سے دیکھا جائے تو تعلیم نئی نسلوں تک معاشرتی اقدار,  ثقافت اور ادب  کی منتقلی کا دوسرا نام ہے.

"شعور" کی بات جائے تو اس کے لفظی معنی احساس کے ہیں. یعنی وہ  علم جو بنا تعلیم اور  دلیل کے حاصل ہو یا وہ نفسیاتی علم جو خود اپنی ذات یا ماحول کے متعلق بذریعہ عقل ملے.  ادراک، وجدان اور رجحان انسانی شعور  کی بیداری کی مختلف صورتیں ہیں.

(جاری ہے)

ایک  تعلیم یافتہ مگر بے حس, وجدان اور ادراک کی خاصیت سے مبرا شخص کبھی بھی باشعور نہیں ہوسکتا پھر چاہے کتنی بھی اعلی ڈگریوں کا حامل کیوں نہ ہو.
ہم سب کے ذہنوں میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ تعلم اور شعور آپس میں مترادف ہیں, اس لیے صرف  تعلیم یافتہ شخص ہی با شعور ہوسکتا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے.

ہمارا یہ نظریہ  کہ تعلیم ہی شعور کا موجد ہے, بالکل غلط اور بے بنیاد  ہے. اللہ تعالی نے انسان کو عقل و شعور تو  اسی دن ہی عطا کیا تھا جس دن بنی نوع انسان وجود میں آیا تھا. اسی عقل شعور کی بنا پر انسان اشرف المخلوقات کے بلند ترین درجے پر فائز کیا گیا.
اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہیں جن میں سے بیشتر تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر ان سب کی ایک خاصیت یہ ضرور تھی کہ وہ حد سے زیادہ  معتبر ,باشعور , انتہائی مدبرانہ شخصیت کے حامل شریف النفس انسان تھے .انہیں غلط اور صحیح کا مکمل ادراک تھا.  یہ ادراک اور آگہی  وحی آنے  کے بعد اپنے عروج پر پہنچا جس نے انبیاء علیہ السلام کو عام انسان سے معتبر کیا.
   اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ  تعلم انسانی خیالات کو سنوارتی ہے , انسانی ذہن پر سوچوں کے نئے دروازے وا کرتی ہے .

زندگی گزارنے  کے نئے طریقے متعارف کراتی ہے . زندگی کو آسان بنانے کا ہنر عطا کرتی ہے. لیکن ہم صرف تعلیم کو ہی شعور سے وابستہ کرلیں تو اس وقت ایک تعلیم یافتہ شخص کا شعور کہاں جاتا ہے جب وہ تعلیم کی بدولت دولت سے مالا مال اعلی عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی اپنے والدین کو بوجھ سمجھتا ہے . اور انہیں اولڈ ایج ہوم میں بھیجتا ہے. یا پھر بے یار مدد گار چھوڑ کر دوسرے ملک کا نمبر دو شہری بننا قبول کرتا ہے.

اس وقت یہ شعور کہاں جاتا ہے جب وہ بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے لوگوں کو اپنی تعلیم اور دولت کے غرور میں زمین پر گھومنے والے کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے .اور اپنے ماتحت افراد سے جانوروں سے زیادہ بدتر سلوک کرتا ہے. اس وقت یہ شعور کہاں جاتا ہے جب دنیا کو دین پر فوقیت دیتا ہے . اس وقت ایک تعلیم یافتہ شخص کا شعور کہاں جاتا ہے جب وہ حکمرانیت کے اعلی عہدوں پر فائز ہو کر ملکی خزانے کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتا ہے اور رعایا پر بھوک , افلاس اور ظلم کے دروازے کھولتا ہے اور اس وقت تعلیم یافتہ خواتین کا شعور کہاں جاتا ہے جب وہ اپنی تعلیم اور دولت کے غرور میں اپنا پہناوا کم کرتی ہیں اور فیشن کے نام پر  عریاں لباس زیب تن کرتی ہیں .


کیا یہ ہے وہ شعور جو اس تعلیم کی دین ہے .نہیں جناب یہ شعور نہیں ہے یہ صرف اور صرف  تعلیم کا غرور ہے .خود کو عقل کل سمجھنا سب سے بڑی بے وقوفی ہے. کسی بھی تعلیم یافتہ شخص کا احساس برتری ذہنی پسماندگی کی ایک کیفیت ہے.  تعلیم تو غرور نہیں عاجزی سکھاتی ہے. جس کی روح تک پہنچتی  ہے, اسے اعلی منبر پر براجمان کرتی ہے اور جس کے اوپر سے گزرتی ہے اسے کے صرف پہناوے اور بول چال اور رہن سہن کے طریقوں کو بدلتی ہے.
یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک تعلیم یافتہ ہونے سے زیادہ ضروری باشعور ہونا ہے کیونکہ جہاں میں نے تعلیم یافتہ دولت مند فرد کو اپنی دولت کے نشے میں مغرور دیکھا ہے وہیں  ایک  معمر اور باشعور شخص کو ایدھی کی شکل میں  سڑکوں پر بھیک مانگتے بھی دیکھا ہے,  وہ بھی اپنے لیے نہیں بلکہ غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے .

جہاں میں نے تعلیم یافتہ اولاد کو اپنے والدین کو دھتکارتے دیکھا ہے وہیں کئی ان پڑھ بچوں کو  اپنے بوڑھے والدین کا  سہارہ بنتے بھی دیکھا ہے. ایک جانب  پڑھے لکھے معزز شوہر کو اپنی بیوی  کو پیٹتے دیکھا ہے تو وہیں دوسری جانب  ان پڑھ جاہل شخص کو اپنی گھر کی عورتوں کا تحفظ کرتے بھی دیکھا ہے.
کہیں پڑھے لکھے والدین کو اپنے بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرتے دیکھا ہے اور کہیں ان پڑھ جاہل والدین کو اپنی بچیوں کو تعلیم دلانے کے لیے تگ و دو کرتے بھی دیکھاہے .

میں نے ایسے ہی پڑھے لکھے با شعور لوگوں کو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے بھی  دیکھا ہے اور ان پڑھ  لوگوں کو بیٹیوں کو اللہ کی رحمت مانتے ہوئے بھی دیکھا ہے . میں نے تعلیم یافتہ افراد کو اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے اور اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے بھی دیکھا ہے اور میں نے ان پڑھ  افراد کو اسلامی اقدار کا پابند بھی دیکھا ہے .
بے شک تعلیم ضروری ہے ہم نے صرف اسناد کو تعلیم  کا نام دیا ہے ,جب تک سند نہ ہوگی تعلیم یافتہ کہلایا نہیں جاسکتا . پھر چاہے وہ جعلی ہی کیوں نہ ہو .اس لیے ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ کو بھی بدلنا ہوگا.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :