پاکستانی سیاست کے ٹڈی دل

جمعہ 19 جون 2020

 Dr. Abdul Wajid Khan

ڈاکٹر عبدالواجد خان

آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہوگا کہ۔اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔پاکستانی سیاست کے بارے بھی اس محاورے کے مصداق کہا جا سکتا ہے کہ۔پاکستانی سیاست ری سیاست تری کون سی کل سیدھی۔ ایک کل ہی کیا ہماری سیاست کا حال چال اور طور اطوار سب کچھ ہی کتے کی دم کی طرح سیدھا ہے۔
اونٹ کے حوالے سے ہم یہ محاورہ بھی سنتے آر ہے ہیں کے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

لیکن پاکستانی سیاست کا اونٹ اسی کرونٹ بیٹھتا ہے جس کرونٹ اسے اس کا ماسٹر جوکی اسے بٹھانا چاہتا ہے اور اگر اونٹ اس کرونٹ سے بیٹھنے سے انکار کردیتا ہے  توپھر اسے لٹادیا جاتا ہے اور ماسٹر جوکی اس پر اپنی مرضی کا کوئی اور جوکی سوار کرا دیتا ہے یا قومی مفاد میں خود سوار ہوجاتا ہے ۔اور پھر ہماری سیاست کا یہ اونٹ ماسٹر جوکی کی مرضی کے مطابق کسی کو گھٹنوں کے بل بیٹھ کے سلامی  دیتا ہے اور کسی کو اپنے بڑے بڑے دانتوں سے دندی وڈھ لیتا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ہماری اس سیاست کے اونٹ پر جب مخصوص کیفیت طاری ہوتی ہے تو یہ اپنے ماسٹر جوکی کو بھی کمر سے پچھاڑ کر نیچے  پھینک دیتا ہے۔لیکن ماسٹر جوکی ماسٹر جو ٹہرا پھر براہ راست یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح ہماری سیاست کے اونٹ کی باگیں سنبھال لیتاہے۔
ہماری سیاست ترجمانوں کی فوج ظفر موج پر چلتی ہے۔ترجمان اصل میں ترجمان نہیں "گمراہان" ہوتے ہیں۔

جنہیں ساون کے اندھے کی طرح اپنی جماعت میں ہرا ہی ہرا اور مخالف جماعتوں میں برا ہی برا ہی نظر آ تاہے۔اپ نے وہ اشتہار تو دیکھا ہوگا کہ جس میں انہی سیاسی ترجمانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ وہ کون ہے جو رانگ کو رائٹ،جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کر دے گا۔ضدی سے ضدی داغ کو وائٹ کردے گا اور جب داغ نہ صاف نہ ہوسکے تو کہہ دےگا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔

ویسے ہماری سیاست کے پاس ایسے ایسے ڈٹرجنٹ موجود ہیں جو بڑے سے بڑے اور گندے سے گندے داغ دھبوں کو منٹوں میں صاف کرکے چن ورگا بنا دیتے ہیں۔بس اس کیلئے ماسٹر جوکی کی خوشنودی حاصل ہونا ضروری یے۔
ہماری ملک میں کسی فیکٹری کاپہیہ چلے نہ چلے سیاسی الزامات کی فیکٹری دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہتی ہے۔اور اسکی پراڈکٹس ملک بھر میں بہت مقبول ہیں۔

الزامات کی ان فیکٹریوں کے مینیجرز بلاناغہ ملک کے مختلف حصوں میں دکانداری لگا کر انتہائی اعتماد اور فخر سے اپنی اصلی جعلی پراڈکٹس میڈیا کے کیمروں کے سامنے آن ریکارڈ پیش کرتے ہیں اور میڈیا ریٹنگ بڑھانے کیلیے اس میں مرچ مصالحہ لگا کر اپنا چورن بیچتا ہے۔دنیا بھر میں سیاست ہاٹ کیک ہے اور  پاکستان میں ویری ہاٹ کیک۔بس اسے ٹھنڈا کر کے اور مل جل کے کھانا آنا چاہیے۔

ورنہ جو نتائج نکلتے ہیں اس سے ہماری سیاست سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔یقین نہیں آتا تو سیاست کے منہ میں ہاتھ ڈال کے دیکھ لیں یا سیاست کے کسی ماہر ڈینٹسٹ سے معلوم کرلیں۔پاکستانی سیاست کے ہیرو سوئس بنک ہو یا منی ٹریل،سرے محل ہو یا فارن کرنسی اکاؤنٹ کا معاملہ ہر جگہ پنجابی ولن کے اس ڈائلاگ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں "اوئے ٹبر وی کھا جاں تے ڈکار وی نہ ماراں"۔

یہ وہ ٹڈی دل ہے جو ہر پانچ سالوں کے بعد نئے اور پرانے  چہروں کے ساتھ آ تا ہے اورملک کا صفایا کرکے چلا جاتا ہے۔پاکستانی سیاست انتہائی کمال مہارت سے ہر معاملے میں گھسنے کا فن جانتی ہے۔چاہے عید کاچاند
ہو یا کرونا،انڈیا ہو یا امریکہ،چینی ہو یا آٹا۔کسی کی بیماری ہو یا زنانی۔سیلاب ہو یا زلزلہ۔ہرجگہ عوام کے نام پر سیاست سیاست کھیلا جانا ضروری ہے۔

ویسے ہماری سیاست کے پیر جناب مدظلہ و تعالیٰ اسلم بخش رئیسانی(سابق وزیراعلی بلوچستان) کی معرکتہ الآرا تھیوری ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی کے  مصداق پاکستان میں سیاست تو سیاست ہوتی ہے چاہے صداقت پر مبنی ہو یا منافقت پر۔ہماری موجودہ سیاست اور امریکی سیاست میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں جگہ پر یوٹرن لینا بڑے لیڈر کی نشانی ہے اور یہ یاد رہے کہ یہ یوٹرن اپنی سیاسی ناپختگی کی وجہ سے نہیں بلکہ" قومی مفادات" میں لئے جاتے ہیں۔

ہماری سیاست میں ایک دوسرے کے گندے کپڑے بھرے چوک میں دھونے کیلئے ملین مارچ اور دھرنا دھرنا کھیلنا عام ہے۔
اور اگر اس طرح سے معاملہ نہ بنے تو نجات دہندہ اور ایمپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ہماری سیاست اس  شعر پر بھرپور عمل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہ اہل سیاست کی روایت ہے پرانی
دعوی جو کیا کرتے ہیں پورا نہیں کرتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :