آدابِ بارگاہِ رسالت ۔ قسط نمبر1

بدھ 24 جون 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

حضور نبیِ کریم خاتم النبیین سرورِانبیاء محبوبِکردگار ہمارے پیارے رسول جنابِمحمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کی ذاتِبابرکات کے ادب و احترام کے بارے میں قرآنِپاک میں واضح احکام موجود ہیں۔ سورہِالاحزاب کی آیت # 53 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے جس کا ترجمہ ہے "اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو ایذا دو"۔ایذا کا لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے، ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس سے خاتم النبیین نبی پاک ﷺکو تکلیف پہنچے یا پہنچنے کا اندیشہ ہو ، ایذا کے زمرے میں آتی ہے، چاہے وہ آپﷺ کے بعد نبوت کا جھوٹا دعوی ہو یا کوئی آپ کی ذاتِ مقدس کے بارے میں نازیبا کلمات استعمال کرنے کی جراتِمذموم کرے۔

قرآنِپاک میں جابجا اللہ و رسول اللہ ﷺ کو ایذا پہنچانے سے تاکیداً منع کیا گیا ہے اور پر بڑی سخت وعید سنائی گئی ہے۔

(جاری ہے)

یعنی رسول اللہﷺ کو ایذا دینا دراصل اللہ کو ایذا دینا ہے۔بے ادبی یا تو نادانستہ سرزد ہوسکتی ہے جیسے لغزشِ لسان ہو جائے یا بے دھیانی میں کوئی قابلِگرفت کلمہ منہ سے نکل جائے یا دوسری صورت میں دانستہ سوچ سمجھ کر جان بوجھ کر کی جاتی ہے۔

بارگاہِرسالت میں دانستہ یا نا دانستہ ہر دو قسم کی بے ادبی یا لغزش ِلسانی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ قرآنِ پاک میں صحابہِکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو مخاطب کر کے یہ ہدایت کی گئی کہ بارگاہِرسالت کے آداب ملحوظ رکھیں یہاں تک کہ نبی ﷺ کی آواز سے اپنی آواز کو بھی بلند نہ ہونے دیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمام کیے ہوئے اعمالِحسنہ ضائع چلے جائیں اور انھیں خبر بھی نہ ہونے پائے۔

شریعت ِمطہرہ کی رْوسے یہی حکم بارگاہِ رسالت کے آداب کے حوالے سے قیامت تک کے لیے آنے والی امت کے لیے عام ہے۔ آپﷺکے وصال کے فوراً بعد مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کیا ، جس پر خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بروقت اس کی سرکوبی کی اور اس گستاخ کو واصلِجہنم کیا۔اس وقت سے لے کر آج تک مسلسل ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایسا فتنہ سر اٹھاتا رہا ہے جو اسلام کی بنیاد پر ضرب لگانے کی کوشش کرتا ہے اور امت کے دلوں سے نبیِمکرمﷺ کی محبت کو کھرچنے یا کم کرنے کی ناپاک جسارت کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ایسے گستاخانِرسالت نہ صرف جہنم کا ایندھن ہوتے ہیں بلکہ انھیں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے اورتاقیامت رسوائی ان کا مقدر کر دی جاتی ہے۔

کیونکہ قرآنِمجید فرقانِ حمید میں خود اللہ تبارک وتعالی نے اپنے نبی کے ذکر کو بلند کرنے کا وعدہ " ورفعنا لک ذکرک"کہہ کر فرمادیا ہے اور اللہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ، اور یہاں تو بات براہِراست اللہ کے محبوب نبی ﷺکی ہے۔ آپ قرآنِپاک پڑھ کر دیکھ لیجیے ، آپ کو صرف نبی کی اطاعت کے بارے میں حکم تو مل جائے گا، لیکن کوئی ایک بھی ایسی آیت نہیں ملے گی جس میں اللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے نبی کی اطاعت کا حکم نہ دیا ہو۔

گویا اللہ اور نبی کی اطاعت لازم و ملزوم ہیں۔ اور ایک کے بغیر دوسرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔نبی کی اطاعت کا مطلب ہی اللہ کی اطاعت ہے اور اللہ کی اطاعت نبی کی اطاعت کا ہی دوسرا نام ہے۔
قرآنِپاک میں آدابِرسالت کی اس قدر تلقین کی گئی کہ اصحابِکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جو بالاتفاق بعد الانبیا ء کرام روئے زمین پر بزرگ ترین طبقہ ہے اور جن کے بارے میں خود اللہ تبارک وتعالی نے "رضی اللہ عنہم و رضو عنہ" کے مصداق ان سے راضی ہونے کی بشارت دی، انھیں بھی بطورِ تاکید سورہ البقرہ آیت # 104 میں کہا گیا "اے ایمان والو!جب نبیﷺ سے مخاطب ہو ا کرو تو راعنا مت کہو، بلکہ انظرنا کہو "۔

کیونکہ یہودیوں کی لغت میں راعنا بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اس لیے وہ ہمارے نبی کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے تھے جس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرماکر مومنین کو اس لفظ کے استعمال سے باقاعدہ منع فرما دیااور اس کا متبادل لفظ بھی خود ارشاد فرمادیا۔اس سے ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہحضور حضور خاتم النبیین نبیِپاکﷺ کی بارگاہِبے کس پناہ میں گستاخی کی تو بات ہی چھوڑیں، اللہ کو اپنے محبوب کے لیے ایسا لفظ بھی گورا نہیں جس میں بے ادبی کا شائبہ بھی ہو۔

ایسے الفاظ کے بارے میں شرعی حکم بھی یہی ہے کہ اگر کسی لفظ کے اچھے اور برے دونوں معانی ہوں اور لفظ بولنے میں برے معنی کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ ہرگزاللہ و رسولﷺ کے لیے استعمال نہ کیے جائیں۔اس بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔
2018 کے الیکشن تک عوام میں محترم عمران خان کے بارے میں ایک وسیع تر خوش گمانی موجود تھی کہ وہ ملک کو بتدریج نظامِمصطفی کی طرف لائیں گے کیونکہ وہ اپنی ہر تقریر اور بیان میں ریاستِ مدینہ کا لفظ استعمال کرتے تھے اور اس بات کا دعوی کرتے تھے کہ اگر ان کو اقتدار دے دیا جائے تو وہ ملک کو ریاستِمدینہ میں تبدیل کر دیں گے اور وہی اصول و قوانین یہاں بھی لاگو ہونگے جو ریاستِ مدینہ میں لاگو ہوتے تھے اور اسی طرح لوگوں کو انصاف ملے گاجیسے اس ریاست میں ملا کرتا تھا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

کسے معلوم تھا کہ وطنِ عزیز کے سادہ لوح عوام کے اسلام کے حوالے سے سچے اور غیر متزلزل جذبات کو اپنے مخصوص مقاصد کے تحت صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک سیڑھی طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور وہی ہوا۔اقتدار ملنے کی دیر تھی، وہ تمام باتیں اور دعوے قصہِپارینہ ٹھہرے۔کون سا انصاف، کہاں کا انصاف، کہاں کی ریاستِمدینہ۔اس حکومت کو دو سال مکمل ہونے کو ہیں ،باقی وعدوں کو تو پرے رکھیے ، اگر اس حوالے سے کوئی ایک بھی دعوی پورا کیا گیا ہو یا ریاستِمدینہ کے قیام کی جانب کوئی معمولی سی پیش قدمی بھی کی گئی ہو تو تحریکِ انصاف کا کوئی قابلِ قدررکن ہمیں مطلع فرما دے ، کم سے کم ہمارے علم میں تو ایسی کوئی ایک بھی بات نہیں۔


ایک بہت بڑی خوش فہمی عام عوام کو یہ تھی اور ہم جیسے خوش گمان یہ باور کیے بیٹھے تھے کہ توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے اب ایسے کیفرِکردار کو پہنچائے جائیں گے کہ آئیندہ کم از کم وطنِعزیز میں کسی کو حضور نبیِ کریم خاتم النبیین روؤف الرحیمﷺ کی توہین کرنے اور ان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔لیکن ہوا اس کے بلکل برعکس۔

قادیانیوں کو حکومت میں عہدے دینے کا معاملہ ہو ، انھیں قومی اقلیتی کمیشن کا رکن بنانے کا اعلان ہو ، ٹیکسٹ بک بورڈز کی جانب سے لفظ خاتم النبیین کو مختلف نصابی کتب سے خاموشی سے حذف کرنا ہو یا توہینِرسالت کی مرتکب آسیہ ملعونہ کوملک سے باہر بھیجا جانا، بدقسمتی سے یہ سب موجودہ دورِحکومت میں ہوا۔ حیف صد حیف ! یہ سب ایک ایسی سیاسی جماعت کے دورِحکومت میں ہو رہا ہے جس نے ملک کو ریاستِ مدینہ بنانے کا خواب دکھا کر عوام کے ووٹ حاصل کیے اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی۔ (جاری ہے )۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :