کورونا وائرس - گھرپرعلاج کے لیے ہدایات- قسط نمبر 1

ہفتہ 13 جون 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

 کیوں اور کیسے کی بحث سے قطعِ نظر ، بدقسمتی سے کورونا وائرس کی وبا تقریباً ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے اور بڑی تیزی سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ملک بھر میں نئے متاثرہ مریضوں کی روزانہ تعدادچارہزارسے بڑھ چکی ہے اور آئے دن اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔اس کی زد میں وہ لوگ بھی آرہے ہیں جو اس کی تباہ کاریوں سے بخوبی آگاہ تھے اور اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے اور وہ لوگ بھی جو اس وائرس کے وجود کے ہی منکر تھے۔

دوسری جانب اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہوجانے اور ہسپتالوں کا رخ کرنے کی وجہ سے شعبہِصحت جو کہ پہلے ہی زبوں حال تھا، اس کی صورتحال تیزی سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ہسپتالوں میں اب نئے مریضوں کی گنجائش تقریباً ختم ہو چکی ہے، ملک بھر کے ہسپتالوں میں موجود وینٹیلیٹرزسب زیرِ استعمال ہیں اور اس وقت ماسوائے چند ایک کے، کسی ہسپتال میں ایمرجنسی کی صورتحال میں وینٹیلیٹر دستیاب نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرنے والی سرکاری و پرائیویٹ لیبارٹریز میں مزید لوگوں کے ٹیسٹ کرنے کی گنجائش بھی تیزی سے ختم ہورہی ہے۔یہ تو ہے ملک بھر کے شعبہِ صحت کی مجموعی زمینی صورتحال۔اب ایسے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عوام کورونا سے بچنے کے لیے کیا کرے اور اگر کوئی اس وائرس سے متاثر ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے۔یہ اس وقت اہم ترین سوالات ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹرز سے مسلسل سوالات ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے اور ان پر عوام کی رہنمائی ضروری ہے۔


عوامی آگاہی کے حوالے سے مارچ واپریل میں مسلسل کالموں کا ایک سلسلہ لکھا گیا تھا جب پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا نے ابھی اپنے پنجے نہیں گاڑے تھے۔ایسے میں جب کہ آئیندہ آنے والے دنوں میں ،جیسا کہ نظر آرہا ہے، ہسپتال کی سہولت مملکتِخداد کے ہر شہری کو میسر نہیں ہوگی اور انھیں گھر پر ہی رہ کر اپنے علاج معالجے کا ازخود انتظام کرنا ہوگا، عام عوام کے لیے آگاہی و رہنمائی کے اس سلسلے کو از سرِنو موجودہ صورتحال کے مطابق ایک بار پھر سے شروع کیا جارہا ہے۔

کالموں کے اس سلسلے کے لیے ہمیں جناب ڈاکٹر سعید اللہ شاہ جو شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں ماہرِ امراضِ دل ہیں ، اور کچھ دیگر مہربان اور دوست ڈاکٹرز جو کورونا وائرس کے مریضوں کا براہِ راست ہسپتالوں میں علاج کر رہے ہیں،کی رہنمائی اور تعاون حاصل رہے گا جس کے لیے ہم ان کا پیشگی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ان ڈاکٹرز کی مشاورت سے استفادہ ِعام کے لیے معلومات ان سطور کے ذریعے عوام الناس تک پہنچائیں تاکہ انھیں پتا ہو کہ کورونا وائرس سے ممکنہ طور پر پیدا شدہ کسی بھی قسم کی صورتحال میں گھر میں رہتے ہوئے انھیں کیا کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے کسی بھی قسم کے سوال کے لیے آپ ہم سے ہمارے ای میل پر رابطہ کر سکتے ہیں جو کالم کے لوگو میں بھی موجود ہے اور کالم کے آخر میں ایک بار پھر درج کر دیا جائے گا۔
بارِ دگر عرض ہے کہ سب سے پہلے ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ موجودہ صورتحال میں ہسپتالوں میں گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے اور وائرس کے پھیلاؤ کی اگر یہی رفتار برقرار رہی تو عین ممکن ہے کہ اگلے چند روز تک یہ گنجائش بلکل ہی ختم ہو جائے، اس لیے بغیر کسی اشد ضرورت و ایمرجنسی کے ہسپتال کا رخ مت کیجیے۔

آپ نے اپنا جو علاج معالجہ اور احتیاط کرنی ہے، وہ گھر پر رہ کرنی ہے۔اس لیے ٹیسٹ مثبت آنے یا کسی بھی قسم کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں پریشان ہونے کی بجائے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت پر توجہ دیجیے۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ کورونا وائرس ہو جانے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اب لازمی موت آگئی۔97 فی صد سے زائد لوگ اس سے صحتیاب ہوجاتے ہیں۔اس لیے حوصلہ ہارنے اور پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔

بس اپنی قوتِمدافعت کو بڑھانے اور علاماتی علاج کے لیے ہر ممکن ذرائع اختیار کیجیے۔ اپنا کمرہ علیحدہ کر لیجیے،اپنے کھانے پینے کے برتن علیحدہ کر لیجیے۔اگر بخار محسوس ہوتا ہے تو اس پر نظر رکھیے۔بخار ہونے کی صورت میں پیناڈول کی دو گولیاں ایک وقت میں ایک ساتھ لیجیے۔بخار زیادہ ہونے اور کم نہ ہونے کی صورت میں اپنے معالج کی ہدایات کے تحت آپ ایک دن میں پیناڈول کی دو گولیاں ہر چھ گھنٹے کے بعد لے سکتے ہیں۔

یہ اس دوا کی انتہائی خوراک ہے۔ اس سے زیادہ ایک دن میں لینا نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔کھانسی ہونے کی صورت میں کھانسی کی دوا استعمال کیجیے۔پیچش یا جلاب۔loose motionکی صورت میں عام طور پر (loperamide) Imodium / Floramax کے کیپسول عام استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ 2mg کے کیپسول ہوتے ہیں اور عام طور پر ایک یا دو خوراک میں آرام آجاتا ہے۔لیکن یہ یاد رکھیے کہ آرام نہ آنے یا طبیعت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں آپ کو فی الفور اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔

موجودہ صورتحال میں پینا ڈول ، تھرما میٹر ، او آر ایس ORS، جوشاندہ، نزلہ ،فلو ،بخار ،کھانسی ،پیچش وغیرہ کی ادویات جو عام طور پر گھروں میں استعمال ہوتی ہیں ،درد کش دوائیں یا pain killers ، یہ سب ہر گھر میں موجود ہونی چاہییں تاکہ بوقتِ ضرورت انھیں استعمال کیا جا سکے۔اس کے علاوہ اگر آپ کو یا آپ کے گھر میں کسی کو کسی بھی قسم کی کوئی بیماری ہے تو یقینی بنائیے کہ ان کے روزمرہ استعمال کی ادویات کی کم از کم دو ہفتے کی خوراک گھر میں موجود ہو تاکہ اس کے لیے آپ کو گھر سے باہر جانے کی ضرورت نہ پڑے۔


اپنی روزمرہ کی خوراک کو بہتر بنائیے۔مکمل حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے روزانہ کم از کم 30 منٹ کی چہل قدمی یا ورزش کو اپنا معمول بنائیے۔ورزش یا چہل قدمی گھر سے نزدیک ترین پارک(اگر وہاں لوگوں کا رش اور وائرس کی منتقلی کا خطرہ نہ ہو)،گھر میں موجود باغیچہ ، صحن، ٹیرس، یا گھر کی چھت پر، کہیں بھی کی جا سکتی ہے۔متوازن خوراک کے ساتھ اپنے وزن کا بھی خیال رکھیے کہ وہ بڑھنے نہ پائے۔

پینے کے لیے نیم گرم پانی کا استعمال کیجیے اور بھاپ لیجیے۔یہ بات ذہن میں بٹھا لیجیے کہ اگر آپ نے گھر میں ہی رہ کر خود علاج کرنا ہے تو کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروانے یا نہ کروانے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ماسوائے اس کے کہ مثبت آنے کی صورت میں آپ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جائیں۔اس لیے اگر آپ کو معمولی سی بھی علامات ہیں بشمول نزلہ ،زکام ،کھانسی ،بخاروغیرہ تو آپ فرض کر لیجیے کہ آپ کورونا وائرس سے کسی بھی ذریعے سے متاثر ہو چکے ہیں اور اس کے علاج کے لیے ممکنہ اقدامات کر لیجیے اور حفاظتی تدابیر اختیار کیجیے اور جو طریقہِعلاج آپ کو فائدہ دیتا ہے،اسے استعمال میں لائیے۔

اور دس سے چودہ دن کے لیے خود کو قرنطینہ کر لیجیے تاکہ آپ کی وجہ سے گھر میں موجود دوسرے افراد اس سے متاثر نہ ہونے پائیں۔
کھانسنے اور چھینکنے کے آداب سیکھیے اور ہر بار یاد رکھیے اور اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیے کہ آپ نے کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کے آگے اپنا بازو یا کہنی رکھنی ہے۔یا اگر آپ کے پاس کوئی کپڑا یا رومال وغیرہ ہے تو اس سے چہرہ ڈھانپ لیجیے تاکہ آپ کے منہ اور ناک سے نکلنے والے ذرات سے دوسرے لوگ اور آپ کے آس پاس موجود اشیا اور فرنیچر وغیرہ محفوظ رہیں اورکسی اور کے انھیں چھونے کی صورت میں وائرس ان میں منتقل نہ ہو نے پائے۔

ہم جانتے ہیں کہ عمومی طور پر ہم میں سے بہت کم لوگ اس کے عادی ہیں اورزیادہ تر لوگوں کو ہوا میں کھانسنے اور چھینکنے کی عادت ہے۔ بظاہر ہر باربازو یا کہنی آگے رکھنا انتہائی مشکل امر ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اس وقت ہم ایک غیر معمولی صورتحال سے گزر رہے ہیں اور یہی احتیاطی تدابیر ہی ہماری اور ہمارے عزیز و اقارب کی بقا کی ضامن ہیں۔اس لیے کوشش کر کے خود کو اس کا عادی بنائیے۔ (جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :