آہ ! ہماری اخلاقی اقدار۔ قسط نمبر1

منگل 9 جون 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

یہ کئی سال پرانی بات ہے۔ تب پاکستان میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے ہندوستان کے مختلف چینلز پر نشر ہونے والے ڈرامے اور پروگرام بڑے شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ان دنوں انڈین آئیڈل کے نام سے ایک پروگرام بڑا مقبول تھا جس میں مختلف عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں گانا گانے کا مقابلہ ہوتا تھا اور وہ پروگرام ہندوستان و پاکستان میں یکساں مقبول تھا۔

بعد میں اسی پروگرام کی طرز پر پاکستان کے ایک پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل نے بھی ایک پروگرام کا آغاز کیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے کچھ آواز کا ملکہ بھی عطا کیا ہوا ہے اور کچھ سوز و گداز بھی،موسیقی سے بھی تھوڑا بہت شغف ہے اور غزل گائیکی سے بھی بچپن سے دلچسپی چلی آرہی ہے سوگھر اور خاندان کی تقریبات میں ہمیشہ ہی ہم سے کچھ نہ کچھ کبھی بطور فرمائش اور کبھی بزور سنا جاتا ہے، لیکن ٹی وی یا کسی چینل پر کسی پروگرام میں کبھی اس حوالے سے شرکت نہیں کی نہ کبھی ایسا سوچا۔

(جاری ہے)

خیر ، اس روز اس پاکستانی مقابلے کا فائنل پروگرام تھا،ہم سب گھر والے بیٹھے تھے اور اس دن ہماری چھوٹی خالہ جان بھی ہمارے گھر ہی موجود تھیں۔پروگرام جونہی ختم ہوا تو ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ اس سے تو کہیں بہتر آپ گا لیتے ہیں، آپ بھی اگر اس مقابلے میں حصہ لیتے تو یقیناً یہ مقابلہ جیت لیتے اور آج ہم بھی فخر سے کہتے کہ ملکی سطح پر ہونے والے اس پروگرام کا فاتح ہمارا بیٹا ہے اور آپ پاکستان کے سب سے بڑے ---، ابھی انھوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ کسی نے لقمہ دیا "میراثی" کہلاتے۔

وہ غالباً سٹار کہنا چاہ رہی تھیں۔بہرحال اس بات پر خوب قہقہے برسے۔
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقدار کا عکاس ہے۔ہر بات کی طرح اس کے بھی دو پہلو ہیں، جن میں سے ایک منفی پہلو تو یہی ہے کہ باوجود ایک چیز کو اخلاقی اور معاشرتی طور پر برا سمجھنے کے ، عوام کی ایک کثیر تعداد اس سے مستفید ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔

لیکن اس بات کا مثبت پہلو ، جو ہمارے آج کے کالم کا موضوع بھی ہے اور جس کے لیے یہ ساری تمہید اور ذاتی واقعہ بیان کیا گیا،یہ ہے کہ اس وقت تک یعنی آج سے تقریباً دس بارہ سال قبل تک برصغیر اور بالخصوس پاکستان کی عوام کے دلوں میں کم از کم برائی کو برائی سمجھنے کا احساس موجود تھا۔اداکاری ہو، گائیکی ہو، ماڈلنگ ہو یا ایسا کوئی بھی شعبہ، اگرچہ سب اسے شوق سے دیکھتے بھی تھے، لیکن بہرحال کوئی بھی اس کو اچھا نہیں سمجھتا تھا اور کوئی بھی شریف خاندان کا فرد اپنی بہن، بیٹی ، بیوی کو برضا و رغبت ان شعبوں میں بھیجنے کو تیار نہیں ہوتا تھا نہ اب ہوتا ہے چاہے اسے کتنے ہی اچھے اور جدید نام میں ملفوف کر کے کیوں نہ پیش کیا جائے۔

آپ سب کو ایک معروف گلوکار کا وہ واقعہ تو یقینا یاد ہوگا جو انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بیان کیا تھا کہ کیسے انھیں بڑے عزت واحترام سے ایک شادی کے پروگرام میں کافی اچھے معاوضے کے عوض مدعو کیا گیا اور علی الصبح صاحبِخانہ اور ان کے ملازم کی آپس کی گفتگو ان کے کانوں میں پڑی جس میں انھیں ان گھٹیا القاب سے یاد کیا گیا جو عام طور پر عوام میں لیئے جاتے ہیں جس پر وہ بہت دلبرداشتہ بھی تھے۔


یہ سب باتیں آج ہمیں اس طرحیاد آئیں کہ سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں کچھ ویڈیوز بہت گردش کرتی رہیں اور بہت زیادہ زیرِ بحث رہیں جن میں ایک خاتون مسزآمنہ عثمان ، جو مبینہ طور پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی رشتہ دار بتائی جاتی ہیں،نے اپنے باڈی گارڈز کے ہمراہ اپنے شوہر کا پیچھا کرتے ہوئے ان کو ان کی دوست ماڈل و اداکارہ عظمی خان اور ا ن کی بہن ہما خان کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا ، اور اس سارے واقعے کی ویڈیو بنا لی جسے بعد ازاں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیا گیا جوبڑی تیزی سے وائرل ہو گئی۔

ان کے ساتھ ملک ریاض کی دو بیٹیاں بھی اس موقع پر موجود تھیں جنھوں نے مبینہ طور پر وہاں توڑ پھوڑ کی اورماڈل و اداکارہ عظمی خان اور ان کی بہن کو زد و کوب بھی کیا۔ماڈل عظمی خان اس ویڈیو میں ان سے نہ صرف معافی مانگتے ہوئے پائی گئیں بلکہ ان سے ایک آخری موقع دینے کی درخواست بھی کرتی ہوئی سنی گئیں۔ بعدازاں مسزآمنہ عثمان کی جانب سے ایک اور ویڈیو اپلوڈ کی گئی جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ اس سارے معاملے میں ان کے شوہر عثمان ملک مکمل طور پر قصوروار ہیں۔

ان کے بقول وہ اس سے قبل پانچ بار عظمی خان کو متنبہ کر چکی تھیں کہ وہ ان کے شوہر سے دور رہے ، لیکن وہ ان کے شوہر سے ناجائز تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ایک 11 سال کا بیٹا ہے اور اپنی تیرہ سالہ ازدواجی زندگی اور اپنے بسے ہوئے گھر کو بچانے کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق انھیں یہ قدم اٹھانے پر بالآخر مجبور ہونا پڑا۔

مسز آمنہ عثمان کے بقول یہ گھر ان کے شوہر کا دوسرا گھر تھا اور بطور بیوی وہ اس میں ہر طرح سے داخلے کا پورا استحقاق رکھتی تھیں سو انھوں نے اپنے حق کا بھرپور استعمال کیا، انھوں نے ماڈل عظمی خان کے اعتکاف کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا اعتکاف تھا کہ جس کے دوران یہ میرے شوہر سے ملتی جلتی بھی رہیں ،جس کے تمام ترثبوت بھی بقول ان کے ان کے پاس موجود ہیں اور جس وقت وہ اپنے گارڈز کے ساتھ ان کے گھر گئیں تو وہاں کوکین کا نشہ اور شراب کا دور چل رہا تھا۔

یہ بات بھی قابلِذکر ہے کہ جونہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو شروع میں یہ بتایا جاتا رہا کہ ان خواتین نے کیروسین آئل ڈال کر ماڈل عظمی خان کو جلانے کی کوشش بھی کی، جس کے بارے میں ایک انٹرویو میں ایک سوال پر خود عظمی خان نے بھی اس کی تردید کی اور اس کو پانی کہہ کر بات کو ٹال دیا جبکہ مسز آمنہ عثمان کے بقول یہ وہی شراب تھی جو اس وقت اعتکاف کے فوراً بعد وہاں پی جا رہی تھی جو انھوں نے اٹھا کر ان لڑکیوں پر انڈیل دی۔


دوسری جانب ایک طرف اپنے مختلف بیانات ، پریس کانفرنس اور انٹرویوز میں ماڈل و اداکارہ عظمی خان اور ان کی بہن ہما خان اپنے لیے انصاف کی دہائی دیتے ہوئی پائی گئیں اور کہا کہ یہ چاند رات تھی اور وہ ابھی ابھی اعتکاف سے اٹھی تھیں اور عثمان ملک جو ان کے دوست ہیں ،ان سے ملنے اوراعتکاف کی مبارکباد دینے آئے تھے کہ ان کی بیگم اپنے گارڈز اور ملک ریاض کی دو بیٹیوں پشمینہ ملک اور امبر ملک کے ساتھ زبردستی ان کے گھر گھس آئیں اور انھیں زدوکوب کیااور توڑ پھوڑ کی اور دوسری طرف انھوں نے اپنے ہر انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کے عثمان ملک سے دو سال سے تعلقات چلے آرہے تھے اور عثمان ملک ان سے شادی کے خواہشمند تھے۔

وکیل حسان خان نیازی کے ذریعے انھوں نے مسز آمنہ عثمان اور ملک ریاض کی دو بیٹیوں پشمینہ ملک اور امبر ملک کے خلاف عدالت ِ عالیہ میں PPC کے سیکشن 452 کے تحت مقدمہ بھی دائر کر دیا۔ (جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :