ہم بھی کیا لوگ ہیں - قسط نمبر 3

جمعرات 2 جولائی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

گزشتہ سے پیوستہ
مختلف لوگوں کی جانب سے یہ استدلال بھی پیش کیا جارہا ہے کہ گفتار کی روانی میں وہ ایسا لفظ استعمال کر گیا ورنہ اس کی نیت درست تھی، چلیے ہم اپنے تمام قارئین سے سوال کرتے ہیں ،صرف اتنا بتا دیجیے کہ کیا ہم میں سے کوئی ہے جو اتنی جرات کرے کہ اپنے والدِ محترم یا بزرگوں کے بارے میں روانی گفتار میں ہی ایسا رکیک اور نامناسب لفظ استعمال کر جائے ؟ کیا آپ میں سے کسی نے کبھی ایسا کیا ؟ یقیناً سب کا جواب نفی میں ہو گا؟ بلکہ اگر کوئی شخص آپ کے بزرگوں کی شان میں ایسا کوئی لفظ استعمال کرے تو آپ کیا کریں گے ؟ کیا ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کر لیں گے ؟ یا اس کے دفاع میں الٹا دلائل دینے شروع کر دینگے کہ یقیناً وہ میرے والد کے بارے میں اچھے خیال رکھتا ہے لیکن بس گفتار کی روانی میں غلط کہہ گیا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں، آپ یقیناً غیرت میں اس کا گریبان پکڑیں گے، اس کی سرزنش کریں گے، اس کو تنبیہہ کریں گے اور اس کو منہ توڑ جواب دیں گے کہ وہ دوبارہ آپ کے بزرگوں کے بارے میں ایسی گستاخی کی جرات نہ کرے۔

(جاری ہے)

اگر بزرگوں کا یہ حال ہے تو حضور خاتم النبیین نبی کریم ﷺ کی ذاتِبابرکات تو بدرجہ اولیٰ ہماری غیرت کی مستحق ہے کہ ایسے گستاخ کا گریبان پکڑا جائے ، اسے منہ توڑ جواب دیا جائے اور اس کی اس انداز میں باز پرس کی جائے کہ آئیندہ وہ ایسی جراتِ مذموم کے بارے میں سوچنے کی بھی کوشش نہ کرے۔
جس لفظ کا حوالہ دیا گیا وہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جبکہ واقعہ عرب کا ہے اور عربی کیا ، فارسی، اردو، پنجابی ،ہندی، سنسکرت سمیت ہر زبان میں اس کے لیے بہترین متبادل الفاظ موجود ہیں۔

ہمارا سوال انتہائی سادہ ہے اور وہ یہ کہ لغت میں اچھے معنی کے حامل کئی متبادل الفاظ کی موجودگی کے باوجودحضور خاتم النبیین نبی کریم ﷺ کے ذاتِمبارک کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے دانستہ ایک ایسے لفظ کا انتخاب کیوں کیا گیا جس کو سن کر ہی تحقیر کا احساس ہو۔ حضور خاتم النبیین ﷺ کے بارے میں بات کرتے ہوئے تو ایک عام مسلمان بھی انتہائی محتاط اور باادب ہو جاتا ہے ، تو کیا وجہ ہے کہ عالمِدین کا لبادہ اوڑھے ہوئے ایک شخص دریدہ دہنی سے بڑی جسارت کرتے ہوئے بے خوف ہو کر ایسا لفظ بہ تکرار استعمال کر جاتا ہے جو عام حالات میں کوئی اپنی ذات کے لیے بھی استعمال کرنا معیوب سمجھے ؟اور پھر کسی نجی مجلس میں بھی نہیں، بلکہ پوری دنیا کو دکھانے کے لیے کرتا ہے اور پوری ڈھٹائی سے اس پر ڈٹ جاتا ہے؟ دلوں سے احترامِرسول کم کرنا۔

جی ہاں، اس کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہیحضور خاتم النبیین نبی کریم روؤف الرحیم ﷺ کا ادب مسلمانوں کے دلوں سے کم کرنا ، پے در پے ایسی باتیں کر کے لوگوں کو اس سطح تک لے آنا کہ وہ ایسے تحقیر آمیز الفاظ کو نعوذ باللہ اپنے نبی کے بارے میں گوارا کر لیں اور اسے ایک معمول کے طور پر لیں، جیسا کہ اس ویڈیو کے بارے میں ہوااور سب لوگوں نے دیکھا کہ نہ صرف اس بدبخت شخص نے ایسی ناپاک جسارت کی، بلکہ سننے والے لاکھوں لوگوں نے بھی اس کو ایسے ہی سنا جیسے یہ بلکل ایک معمولی بات ہو۔

وائے حیرت ، ایک مسلمان کی غیرت اس بات کو کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ جس لفظ کا استعمال وہ اپنے والدین اور بزرگوں کے لیے گھٹیا اور نامناسب سمجھے، اس کوحضور خاتم النبیین نبیِمکرمﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات کے لیے روا جانے اور اسے استعمال کرنے والے ملعون کی گرفت کرنے کی بجائے اس کا دفاع کرے ؟ اسی سے آپ اندازہ لگا لیجیے کہ یہ ملعون شخص ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو کس حد تک اپنے دام میں گرفتار کر چکا ہے اور جب بظاہر باشعور اور تعلیم یافتہ طبقہ اس کی چالوں کو نہیں سمجھ پا رہا تو عام سادہ لوح عوام کا حال آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔


حق تو یہ تھا ہر قابلِذکر مجلس /فورم سے اس ملعون کی مذمت کی جاتی اور ہر مسلمان اس کے خلاف آواز اٹھاتا، لیکن افسوس ایسا نہ ہوااور معدودے چند لوگوں کے سوا کسی نے اس ملعون سے بازپرس نہیں کی۔الٹا بے شمار لوگوں نے اس کو حق پر ثابت کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے اس کی مختلف ویڈیوز کو اپنے سوشل میڈیا والز پر اپلوڈ کرنا شروع کر دیا۔ درحقیقت گزشتہ ایک عشرے میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسے ہی نام نہاد عالموں کو استعمال کر کے ہمارے قومی شعور اور اخلاقیات کو بری طرح تنزلی کا شکار کر دیا گیا ہے، کہ جن کا دین کے علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتااور وہ قرآن و سنت اور احادیث کی اپنی من پسند تشریحات کر کے امت کو گمراہ کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

حالت یہ ہوگئی ہے کہ لوگوں کو اچھے اور برے کے درمیان فرق تک نہیں معلوم۔ اور تو اور ، ہماری آج کی نسل کو الا ماشاء اللہ، یہ تک نہیں معلوم کہ الفاظ کے چناؤ کی کیا اہمیت ہے اور جب بات بارگاہِرسالت کی ہو تو ادب کا اعلی ترین معیار اختیار کرنا بھی کم محسوس ہوتا ہے۔ وہ بارگاہ کہ جس کے بارے میں کہا گیا
ادب گاہِہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
ان کی جناب میں عامیانہ الفاظ استعمال کرنے کے بارے میں کوئی مسلمان سوچنے کا تصور بھی کیسے کر سکتا ہے ؟
ہم جس اخلاقی انحطاط کا رونا رو رہے تھے ، فی الحقیقت بات اس سے کہیں آگے جاچکی ہے۔

اس ویڈیو نے تو ہمیں سچ مچ دھچکا پہنچایا ہے کہ قوم کی سوچوں کا رخ کس جانب موڑا جا رہا ہے کہ ہمارے پیاریحضور خاتم النبیین ﷺ کے بارے میں ایسے گھٹیا الفاظ کو قوم کے اعلی تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے ایک معمولی اور روزمرہ کی بات کے طور پر لیا جا رہا ہے اور یہ الفاظ استعمال کرنے والے کی گرفت کرنے کی بجائے اس کو درست ثابت کرنے کے لیے دلائل دیے جارہے ہیں ، اسے ایک بہترین عالمِ دین کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور اس کی تائید و دفاع کر کے اسے مزید شہ دی جارہی ہے تاکہ وہ کل نعوذ باللہ اس سے بھی زیادہ قابلِاعتراض الفاظ استعمال کرنے کی مذموم جرات کرے۔

قرآنِپاک میں جابجا ان اقوام کا ذکر ہے جو اپنے نبیوں کی نہ صرف نافرمانی کرتے تھے بلکہ ان کے لیے ایسے ہی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتے تھے اور ان کا استہزا ء اڑایا کرتے تھے ، جس کی پاداش میں اللہ نے ایسی اقوام پر عذاب نازل کر کے انھیں تباہ و برباد کر دیا۔کیا ہمیں خدا کی ناراضی کا کوئی ڈر نہیں کہ ہم اس کے حبیب ﷺ کی جناب میں ایسے نازیبا الفاظ کو روا قرار دے رہے ہیں جن کو اپنے والدین اور بزرگوں کے لیے استعمال کرنا بھی ہم مناسب نہیں سمجھتے ؟کیا ہمارے لیے ہمارے بزرگ اور والدین ،ہمارے نبی ﷺ سے بڑھ کر ہیں، جو نصِ قطعی کی رو سے مومنین کی جانوں کے مالک ہیں؟ کیا کورونا وائرس جیسی عالمگیر وبا میں مبتلا ہونے کے باوجود ہمیں عقل نہیں آئی ؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم نادانستگی میں کیا کر رہے ہیں اور کہیں عذابِ الہی کو دعوت تو نہیں دے رہے ؟ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ اللہ کے حبیب ﷺ کے لیے عامیانہ لفظ استعمال کرنے والے کا دفاع کرتے ہیں اور پھر اللہ سے رحم کی امید بھی رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :