احتیاط -کورونا وائرس سے بچاؤ کا واحد راستہ

منگل 26 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

اب جبکہ عالمی ادارہِ صحت کی طرف سے یہ انتباہ کیا جاچکا ہے کہ عین ممکن ہے کہ کورونا وائرس کا خاتمہ کبھی بھی ممکن نہ ہونے پائے اور ایڈز وغیرہ کی طرح یہ ایک مستقل وبا کی شکل اختیار کر لے، تو انسان کو اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھنا ہوگا۔یہ ڈھنگ کیسے سیکھنا ہوگا ؟ یہ بہت اہم سوال ہے اور اس کے لیے ہمیں کیا کررہے ہیں اور مستقبل میں ہمیں کس قسم کے اقدامات اٹھانے چاہیں اور کون کون سی حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیں کہ ہم اپنے روزمرہ کے امور بھی سرانجام دے سکیں، ایک دوسرے سے میل ملاقات بھی رکھ سکیں اور اس وائرس کے خوف سے بھی بچ سکیں، یہ جاننا اور ان پر عمل کرنا ہم سب کے لیے ازبس ضروری ہے۔

عید الفطر کی آمد آمد ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ہم مسلمانوں کے لیے مذہبی اورمعاشرتی لحاظ سے اہم ترین تہواروں میں سے ایک ہے۔

(جاری ہے)

جہاں سارا سال کوئی اپنوں سے دور رہے، تو کوشش ہوتی ہے کہ عید کے عید اپنے گھر والوں سے ملاقات ہو جائے۔ بسلسلہِ روزگار دوسرے شہروں میں مقیم افراد بڑی تعداد میں اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں، جن کا ایک مقصد تو اہلِ خاندان سے ملاقات ہوتی ہے اور دوسرا اپنے والدین اور فوت شدہ عزیز و اقارب کی قبور پر حاضری بھی مقصود ہوتی ہے۔


ایک طرف حکومت نے عید کے موقع پر پورے ملک میں تقریباً ایک ہفتہ نہ صرف عام تعطیل کا اعلان کیا ہے، بلکہ وبائی ماہرین کی تمام تر ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک بھر سے گزشتہ ہفتے لاک ڈاؤن ،جو پہلے ہی برائے نام تھا، اب عملاً ختم کر دیا ہے۔ٹرین سروس جو اب تک معطل تھی، اس کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے اور ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کا بھی باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے گزشتہ ہفتے سے ہفتے میں چار دن کاروبار کی بھی اجازت دے دی تھی جس پرعدالتِ عظمی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کاروباری طبقے کو ملک بھر میں چار دن کی بجائے عید تک پورا ہفتہ کاروبار کھولنے کی اجازت دے دی۔

حکومت ہو یا معزز عدالت، یہ تمام اقدامات اس نازک وقت میں اٹھائے گئے جبکہ ابھی وبا اپنے عروج کی طرف بتدریج سفر کر رہی ہے اورخود حکومتی وزرا اور نمائندوں کے مطابق جون کا وسط پاکستان میں وبا کے عروج کا وقت ہوگا۔کاروبار کھلتے ہی بازاروں میں لوگ اس طرح خریداری کے لیے ٹوٹ پڑے ہیں کہ گویا انھیں اس کے بعددوبارہ یہ موقع نہیں ملنا،ہر بازار اور مارکیٹ اورشاپنگ مال میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے اور حفاظتی اقدامات کا نہ کسی کو پتا ہے اور نہ پرواہ۔

ان عاقبت نااندیشانہ اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گزشتہ ہفتے سے کورونا وائرس کے روزانہ مریض اوسطاً دو ہزار سے زائد ہو گئے ہیں اور ان میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔سونے پہ سہاگاٹرانسپورٹ اور ٹرین سروس کا عین وبا کے درمیان دوبارہ آغازکر دیا گیا ہے جو انتہائی خطرناک بلکہ تباہ کن نتائج کا حامل ہو گاکیونکہ کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں سے لوگ جو پہلے لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہیں نکل پا رہے تھے ، اب بہت بڑی تعداد میں اپنے آبائی علاقوں کا رخ کریں گے اور پورے ملک میں پھیل جائیں گے اور ان میں سے شاید سینکڑوں یا ہزاروں ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ممکنہ ذریعہ بن جائیں، اس بارے میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ تین دن بعد عید الفطر کا تہوار بھی آرہا ہے،تو ایسے میں یہ اندیشہ قطعی بے جا نہیں کہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ایک دوسرے سے میل ملاقات کریں گے اور سماجی فاصلے کی پابندی تو دور کی بات ،کسی قسم کے حفاظتی اقدامات کا بھی کوئی خیال نہیں رکھے گا،جس کا لازمی نتیجہ کورونا وائرس کے بے تحاشا پھیلاؤ کی صورت میں نکلے گا۔

انتہائی دکھ اور افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ معیشت بچانے اورغریب لوگوں کے کاروبار بچانے کے نام پر اس نااہل اور مکمل طور پر حکمت سے عاری حکومت نے اپنے عاقبت نااندیشانہ فیصلوں سے عملاً پورے ملک کے عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں۔اب اللہ تبارک و تعالی سے رحم کی دعا ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ اللہ کے کرم کے بعد صرف اور صرف سماجی فاصلہ ہی اس وبا سے بچاؤ کا واحد ذریعہ بچا تھا ، اس کا بھی کریا کرم حکومت نے تمام کاروبا راور بازار کھول کر لوگوں کو عملاً اس کی خلاف ورزی کی راہ خود ہی دکھا کر پہلے ہی کر دیا ہے۔

آپ اندازہ کیجیے وہ عوام جو گزشتہ دو ماہ سے بھوکی مر رہی تھی،جنابِ وزیرِ اعظم اپنی ہر تقریر میں جن کا ذکر فرماتے تھے اور جن کو بھوکا مرنے سے بچانے کے نام پر انھوں نے پورے ملک کو کورونا کی اس وبا میں جھونک دیا ہے ، اس عوام نے صرف گزشتہ پانچ دن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 ارب روپے سے زائد کی خریداری کی ہے اور یہ اعداد و شمار ملک کے صرف چار پانچ بڑے شہروں کے ہیں، باقی ملک بھر کا آپ خود اندازہ لگا لیجیے۔

خریداری کا حجم تو خیر ایک طرف رکھیے، ملک بھر میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے اس طرح کھلم کھلا بازاروں میں ہجوم کی صورت میں خریداری کے ہنگام کورونا وائرس کس قدر تیزی سے پھیلا ہوگا اور کتنے لوگوں کو اس نے اپنے شکنجے میں لے لیا ہوگااور پھر ان کی وجہ سے مزید کتنے خاندان اس سے متاثر ہونگے، اس کا موہوم سا اندازہ بھی کسی حساس انسان کا دل دہلانے کو کافی ہے۔

اس وقت ہمارے بچاؤ کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ بچا ہے اور وہ ہے احتیاط اورسماجی فاصلہ۔ ہمیں چاہیے کہ عید کے تہوار پر ہم احتیاط کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے میل ملاقات کریں، بلا ضرورت کسی کے گھر آنے جانے سے گریزکریں، اور صرف اپنے ان قریبی ترین عزیزوں سے احتیاط کے ساتھ ملاقات کریں کہ جن کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ کورونا وائرس کے حامل نہیں اور گزشتہ کئی ہفتوں سے جنھوں نے شہر سے باہر کا سفر نہیں کیا اور نہ ہی ابھی کہیں باہر سے آئے ہیں۔

مناسب سماجی فاصلہ رکھ کر ملیں، ماسک اور سینیٹائزر کا استعمال کریں اور صابن سے ہاتھ دھونے کو عادت بنائیں، بالخصوص باہر سے واپس گھر آکر کوشش کریں کہ افرادِخانہ سے ملنے سے قبل کپڑے تبدیل کرکے نہا لیں۔اگر یہ عید ہمیں صرف اپنے قریب ترین اہلِ خاندان اور صرف بہن بھائیوں کیساتھ ہی منانی پڑتی ہے تو بھی اپنی اور عزیز و اقارب کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کی خاطر یہ سودا مہنگا نہیں۔

اگر اس وقت آپ نے مناسب احتیاط کر لی اور اس وبا سے خود کو اور اپنے آس پاس رہنے والوں کو محفوظ رکھا تو انشاء اللہ آپ آنے والی تمام عیدیں پھر سے گزشتہ سالوں کی طرح اہتمام سے منا لیں گے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ ایک ایسا وائرس ہے کہ جس میں آپ کو نہ صرف خود کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن تدبیر کرنی ہے بلکہ اپنے پیاروں، اپنے آس پاس موجود لوگوں اور اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کو بھی اس کی برابر تلقین کرنی ہے اور ان کے لیے بھی حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔

کیونکہ اگر ان میں سے کوئی کورونا وائرس کا شکار ہوتا ہے، تو پھر آپ بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ سکتے۔ سو اگر خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے آس پاس لوگوں کی حفاظت کو خود یقینی بنائیے۔ یاد رکھیے آپ تب تک محفوظ ہیں جب تک آپ کے پڑوسی، آپ کے گلی محلے میں رہنے والے محفوظ ہیں۔
بحیثیتِمسلمان ہمیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے ہمیں دینِمحمدی عطا کیا اور حضورِ پاک صاحبِلولاکﷺ کی سیرتِ اطہر کی صورت میں ہمارے لیے زندگی کا کامل نمونہ تاقیامت باقی رکھا۔

ان گنت درود وسلام اللہ کے محبوب اور ہمارے پیارے نبی ﷺ پر کہ جنھوں نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے اور چھینکنے اور کھانسنے تک کے آداب آج سے چودہ سو سال قبل اپنی امت کو تعلیم فرما دیے۔پڑوسیوں کے حقوق اس قدرتواتر کے ساتھ بیان فرمائے کہ اکابر صحابہ کے بقول "ہمیں یہ گمان گزرنے لگا کہ کہیں پڑوسی وراثت میں بھی حصہ دار نہ بنا دیے جائیں"،اور انسان چودہ سو سال کی تحقیق کے بعد اب آ کر اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ جسمانی پاکیزگی اور طہارت ہر قسم کے وائرسز سے بچاؤ کا سب سے بہتر اور مفید ذریعہ ہے اور یہ بھی کہ ہمارے پڑوسی محفوظ ہیں تو ہم بھی محفوظ ہیں۔

ہمارا یقینِکامل ہے کہ صرف صدقِدل سے اور پورے طور سے انسان آنحضور/ﷺ کی سیرتِپاک کی پیروی کو خود پر لازم کر لے تو کوئی مصیبت اس کے نزدیک نہ آنے پائے، کوئی وبا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔اگرچہ اس حکومت سے کوئی اچھی توقع رکھنا اب پرلے درجے کی خام خیالی ہے لیکن اس کے باوجود ہماری پرزوردرخواست ہے کہ سیرتِطیبہ کو باقاعدہ ہرسطح کے تعلیمی نصاب میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے۔

ہم سب کے لیے بھی یہ سنہرا وقت ہے کہ سیرتِ مطہرہ کی روشنی میں اپنی اولاد کی تربیت کریں، انھیں حضورﷺ کی سنت کی پیروی کرنے کا درس دیں بلکہ اس کا اہتمام کریں،سیرت ِ طیبہ سے اپنی اولاد اور اپنے احباب کو روشناس کرائیں۔خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنے بچوں اور متعلقین کو بھی اس پر عمل کی تلقین کریں اور محفوظ رہیں۔(ختم شد)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :