اگر اب بھی ہم نہ سدھرے

پیر 15 جون 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

گزشتہ سے پیوستہ
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی بہت سینئیر یا اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والا مشہور وکیل ایسے عدالتی کیسز کی پیروی کرتا ہے جن میں celebritiesیا ملک کے مشہور لوگوں کا نام آئے یا وہ ملوث ہوں۔ لیکن اس کیس کی پیروی کے لیے ایسے کسی سینئیر وکیل کی بجائے پورے ملک میں سے صرف حسان خان نیازی آگے بڑھے۔

اگر ماڈل و اداکارہ عظمی خان کی پہلی پریس کانفرنس دیکھیں تو وہاں بھی زیادہ تر گفتگو حسان نیازی یا ان کی ہدایات کے تحت ہی نظر آئی اور اس پوری پریس کانفرنس میں عظمی خان کے اردگرد نوجوان وکلا ہی موجودنظر آئے۔ اس سے مسز آمنہ عثمان کے اپنے ویڈیو میں پیش کیے گئے اس بیان کو بھی تقویت ملتی ہے کہ حسان خان نیازی ،ملک ریاض کے ساتھ اپنے کسی ذاتی جھگڑے کی وجہ سے ان کا نام اس کیس میں بلاوجہ اچھال رہے ہیں جبکہ ان کے شوہر ملک عثمان کا ملک ریاض کے ساتھ کوئی براہِراست خونی رشتہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)


ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پورے ملک کی تقریباً 99 فیصد عوام کا پہلا ری ایکشن مسز آمنہ عثمان کو لعن طعن کرنے پر مبنی تھا کہ وہ چونکہ ملک ریاض کی رشتہ دار ہے جو اس ملک کی ایک اہم ترین اور طاقتور ترین شخصیات میں سے ایک ہیں اس لیے وہ پیسے کے زور پر غنڈہ گردی کر رہی ہے ، ریاست اور اس کا قانون بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتا اور یہ کہ جس کے پاس بھی پیسہ ہے وہ جو چاہے کر لے اور یہ بھی کہ انھیں فی الفور گرفتار کر کے نشانِعبرت بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ماڈل عظمی خان کو مظلوم قرار دیا گیا اور ان کے ساتھ اظہارِیک جہتی کیا گیااور برملا کہا گیا کہ مسز آمنہ عثمان نے طاقت اور دولت کے نشے میں ایک مظلوم عورت کے گھر چڑھائی کر دی۔

اس دوران جس جس نے بھی مسز آمنہ عثمان کے حق میں آواز اٹھانے اور ان کے موقف کو درست کہنے کی جسارت کی، اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
آگے بڑھنے سے قبل ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ انفرادی طور پر عظمی خان ہوں، ہما خان ہوں یا آمنہ عثمان، امبر ملک یا پشمینہ ملک ، سبھی یکساں طور پر قابلِ احترام ہیں اور عورت ہونے کے ناطے ان کا احترام دوچند ہوجاتا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ذاتی زندگی میں کوئی انسان کچھ بھی کرتا رہے، یہ اس کا ذاتی فعل ہوتا ہے، لیکن جب بات ذاتی سے نکل معاشرتی سطحپر چلی جاتی ہے تو پھر اس پر تنقید بھی ہوتی ہے اور اس کا موازنہ بھی کیا جاتاہے۔

بلکل اسی طرح جس طرح مسز آمنہ عثمان کو کل تک کوئی بھی نہیں جانتا تھا، وہ ذاتی زندگی میں کیا کرتی رہیں یہ ان کا سراسر ذاتی مسئلہ تھا، لیکن اس ایک ویڈیو کے بعد انھیں یکایک ٹھیکیدار کی بیٹی کا طعنہ دیا گیا اور دولت اور طاقت کے نشے میں ڈوبی غنڈہ گردی کرتی ایک مغرور خاتون کے روپ میں پیش کیا گیا ، ایسے ہی عظمی خان اداکارہ و ماڈل ہیں اور مردوں سے ان کی دوستیاں بھی ہیں تو یہ سراسر ان کا ذاتی فعل ہے، لیکن اس واقعے کے بعد چونکہ اب بات ذاتی سے نکل کر معاشرتی سطح پر جا چکی ہے اور وہ خود جا بجا اپنے انٹرویوز میں ہر بات بیان بھی کر رہی ہیں ، تو اب ہر دو خواتین کا موازنہ بھی ہوگا اور ان کے افعال کی تائید یا تردید بھی ہوگی۔

روپے پیسے ، امارت غربت ، طاقت و شہرت وغیرہ کو ذرا ایک طرف رکھیے اور اس سارے واقعے کا غیر جانبدار انہ انداز میں جائزہ لیجیے۔
ایک جانب ایک خاتون ہے جو کسی کے نکاح میں ہے اور اپنی شادی شدہ زندگی کو بچانے کے لیے آخری حد تک چلی جاتی ہے اور اس لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہے اور اس سے مار پیٹ تک کرتی ہے جس کی وجہ سے اس کی خانگی زندگی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

دوسری جانب ایک اداکارہ و ماڈل ہے جو علی الاعلان ہر انٹرویو میں تسلیم کرتی ہے کہ اس کے دوسری عورت کے شوہر کے ساتھ دو سال سے تعلقات چلے آ رہے ہیں، یعنی دوسرے لفظوں میں وہ خود اپنے منہ سے اپنے حیا باختہ اور بدکردار ہونے کاساری دنیا کے سامنے اقرار کر رہی ہے۔ آپ میں سے ہر بندہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک آپ کی بیٹی یا بہن ہوتی تو آپ اسے ان میں سے کس کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے؟ ہمیں بغیر کسی شک و شبہ کے یقین ہے کہ آپ سب کا جواب مسز آمنہ عثمان کے حق میں ہوگا ، ان کا بھی جو عظمی خان کو درست سمجھتے ہیں اور ان کا بھی جو مسز آمنہ عثمان کو درست سمجھتے ہیں، بلکہ ہمیں یقین ہے کہ اگر اس سوال کا جواب خود عظمی خان سے بھی لیا جائے تو وہ بھی آمنہ عثمان ہی کہیں گی۔


آمدم برسرِمطلب ، اب یہ مقدمہ عدالت میں ہے ،عین ممکن ہے کہ فریقین میں اتفاقِ رائے سے کچھ دے دلا کر معاملہ دبا دیا جائے یا اس کیس کا عدالتِ عالیہ کوئی فیصلہ کرے،آنے والوں دنوں میں یقیناً یہ وقت کی گرد میں دب جائے گا اور ہمارے حافظوں سے اوجھل ہوجائے گا لیکن اس واقعے نے ہمارے اجتماعی شعور اور اخلاقی اقدار کے بارے میں بے شمار سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ہم بحیثیت معاشرہ مسلسل زوال کا شکار ہو رہے ہیں،اور اب نوبت اخلاقی اقدار کی تنزلی تک آن پہنچی ہے۔ ہمارااخلاقی معیار گزشتہ کچھ سالوں میں اس قدر گر چکا ہے کہ ہم بطور معاشرہ بحیثیتِ قوم جائز نکاح کے رشتے میں بندھی ایک قوم کی بیٹی کے مقابلے میں اپنی ہمدردیوں کا حقدار ایک حیا باختہ عورت کو سمجھتے ہیں جو اپنے منہ سے اپنی بدکرداری کا فخریہ اعتراف کرتی ہے،اورنہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ عملاً اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اس عورت کے مقابلے میں شانہ بہ بشانہ کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جسے اپنی خانگی زندگی بچانے کے لیے یہ اقدام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

آپ مسز آمنہ عثمان کے طریقہِ کار سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن آپ اس کے موقف کو ہرگز نہیں جھٹلا سکتے اور نہ اسے غلط ثابت کر سکتے ہیں کیونکہ اس کی جگہ اگر کسی اور کی بہن یا بیٹی ہوتی تو اس کے بس میں بھی جو کچھ ہوتا وہ ضرور کرتی۔یہ بات ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ کوئی بھی عورت نہ تو ہنسی خوشی سوکن برداشت کرتی ہے اور نہ اپنے مرد کے کسی اور عورت کے ساتھ تعلقات کو کسی بھی صورت برداشت کرتی ہے۔

ہمارے اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ ہم یکسر اچھے برے کی تمیز کھو چکے ہیں۔ہم یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ ہمیں اچھے اور برے میں سے اچھے کا ساتھ دینا چاہیے اور برے کو اس کی برائی کی نشاندہی کر کے اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ اس کی پیٹھ ٹھونکنی اور اسے شہ دینی چاہیے کہ اس نے برائی کر کے بلکل درست کیا۔ہم میں سے کسی کو اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ ہماری غفلت اور اخلاقی معیار پر توجہ نہ دینے کے ہمارے معاشرے اور ہماری موجودہ نسلوں پر کتنے خوفناک اور تباہ کن اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔

اگر آج بھی ہم نے اپنی اصلاح نہ کی تو مستقبل میں آنے والی ہماری نسلیں ان اخلاقی اقدارسے مکمل طور پر نا آشنا ہونگی، بلکل اسی طرح جس طرح آج کل کی موجودہ نسل ، الا ماشاء اللہ، اپنے بزرگوں، بڑوں، ماں باپ اور اساتذہ کے احترام اور اس احترام کے تقاضوں سے یکسر نا آشنا ہے اور اب بتایا بھی جائے تو اسے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ اللہ ہمیں وہ دن کبھی نہ دکھائے لیکن اگر اب بھی ہم نہ سدھرے اور اس واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس بنا کر اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخلاق و کردار کا جائزہ لے کر اسے درستی کی جانب گامزن نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں کہ کل یہ گھر گھر کی کہانی ہوگی۔

اس وقت کسی کے پاس پچھتانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ (ختم شد)
پسِ تحریر : فریقین میں باہم صلح ہو جانے کے بعد عظمی خان نے اپنا کیس اور FIR یہ کہہ کرواپس لے لیے کہ انھیں کسی نے نہیں مارا تھا، بلکہ انکا پاؤں گلاس ٹوٹنے سے زخمی ہوا تھا، اور مسز آمنہ عثمان یا ملک ریاض کی بیٹیوں اور گارڈز نے ان پر کوئی تشدد نہیں کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :