بنتِ بلوچستان کی پکار-وزیرِ اعظم توجہ فرمائیں

ہفتہ 6 جون 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

معدنی وسائل سے مالامال پاکستان کا صوبہ بلوچستان ہمیشہ سے پسماندگی کا شکار چلا آرہا ہے۔وفاقی حکومتوں میں کلیدی عہدوں پر بلوچستان کے اہم افراد کے گاہے بگاہے فائز ہونے کے باوجود اس کو صوبے کے عوام کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملکی ترقی میں بلوچستان کی عوام کو وہ حصہ آج تک نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔موجودہ کورونا وبا کی صورتحال میں جو کچھ صوبہ بلوچستان میں ہو رہا ہے، اس کو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتِبلوچستان کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق آج 3جون 2020تک پورے بلوچستان میں صرف 4740 کورونا کے مریض اور اموات 49 ہیں، جبکہ اصل صورتحال کہیں زیادہ گھمبیر اور خوفناک ہے۔ہمارے ایک بہت مہربان اور انتہائی معتبر شخصیت کے حوالے سے بلوچستان کی ایک بیٹی نے ہم سے رابطہ کیا ہے جن کا پیغام ہم اربابِاقتدار تک پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کادرست طریقے سے جائزہ لے کر راست سمت میں اقدامات کیے جا سکیں۔

(جاری ہے)

ہماری یہ بہن ایک انتہائی پڑھے لکھے اورمعزز خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور خود بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ایک متمول خاندان کی بہو ہیں جن کے کئی افراد اچھے عہدوں پر متمکن ہیں۔ کورونا وبا سے پیدا شدہ صورتحال سے خود بھی گزرتے ہوئے بلوچستان کے عوام کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں،لوگوں کی موجودہ بدحالی اور کورونا وائرس سے ہونے والی تباہ کاری کا درد ان کے لفظ لفظ سے چھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

وہ وزیرِ اعظم عمران خان سے رحم کی اپیل کر رہی ہیں کہ وہ صوبہ بلوچستان کے حالات پر فی الفور توجہ دیں اور کورونا وائرس سے لوگوں کو بچانے کے لیے اقدامات کریں۔انھوں نے اپنے پیغام میں کیا کہا، ہم چاہتے ہیں کہ لفظ بہ لفظ یہ تمام باتیں حکامِبالاکے گوش گزار کریں تاکہ وہ معاملات کی سنگینی کا اندازہ کریں اور بلوچستان کی عوام کو بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔


بلوچستان کی اس بیٹی کا پیدائشی تعلق راولپنڈی کی ایک معززپنجابی فیملی سے ہے اور شادی کے بعد بیس سال سے کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ اور ان بیس سالوں میں بلوچ عوام کو بہت سے مسائل کا سامنا کرتے دیکھتی آرہی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کو جیسے آج تک نظر انداز کیا گیا، بلوچ عوام کے حقوق پامال کیے گئے، اس کا تصور بھی محال ہے۔وہ بہت دکھ سے بتاتی ہیں کہ کورونا وائرس بلوچستان میں بہت زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

نہ تو عوام کو کورونا وائرس کے خطرے کا کماحقہ شعور ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتی سطح سے ان کا شعور اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول بدقسمتی سے صوبائی حکومت اس معاملے میں وبا کی سنگینی کے مقابلے میں جو اقدامات کر رہی ہے ، وہ بلکل ناکافی اور آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور ان اقدامات میں تیزی لانے کی اشد ضرورت ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ لوگوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور ان کے اپنے گاؤں میں گزشتہ کئی روز سے روزانہ ایک سے دو اموات ہو رہی ہیں اور شہر بھر میں 80-50 اموات روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔

کوئٹہ میں بروری روڈ، سریاب روڈ،سیٹیلائٹ ٹاؤن،پٹیل باغ،پشتون آباد،رندغر،کلی لوئر کاریز،پرنس روڈ، غرضیکہ کوئی بھی جگہ اب کورونا وائرس سے محفوظ نہیں۔ان کے مطابق بلوچستان میں جہاں جہاں ان کے تعلقات ہیں، روزانہ 15-10 اموات کی خبر ملتی ہے اور حکام یا کوئی بھی شخص ان علاقوں میں جا کر اور متعلقہ قبرستانوں کے گورکنوں سے ان اموات کی تصدیق کر سکتا ہے۔

ان کے مطابق لوگ مسلسل غیر مصدقہ معلومات اور کورونا وائرس کے حوالے سے طرح طرح کی خود ساختہ کہانیوں کی وجہ سے اس قدر الجھن کا شکار ہو چکے ہیں کہ وہ باوجود روزانہ بڑی تعداد میں اموات کے کورونا وائرس کے وجود کو ہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو رہے اور ایک دوسرے سے گھل مل رہے ہیں۔ماسک نہ پہننے پر صوبائی حکومت کی طرف سے جرمانہ کی سزا کے اعلان کے باوجود بمشکل پانچ فی صد لوگ اس قانون پر عمل کر رہے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ہم نے بارہا صوبائی حکام کو ان مسائل سے آگاہ کیا اور اس جانب توجہ دلائی لیکن اس سب کے باوجود ضرورت کے مطابق اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
اپنے خاندان کے حوالے سے بات کرتے ہو ئے وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کے ماموں کی کورونا وائرس کی وجہ سے وفات ہوئی، لیکن بار بار کی درخواستوں کے باوجود صوبائی حکام نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس علاقے کو sealنہیں کیا۔

ان کی وفات پر سینکڑوں لوگ کوئٹہ بھر سے تعزیت کے لیے آئے اور ان سے بے شمار کورونا وائرس سے متاثر بھی ہوئے اور بعد ازاں ان میں سے کئی لوگوں کی کورونا وائرس کی وجہ سے وفات بھی ہوئی لیکن بوجوہ ان اموات کی اصل وجہ چھپا لی گئی اور کورونا وائرس ڈیکلئیر ہی نہیں کیا گیا۔کیونکہ حکومتی موقف یہ تھا کہ ہر سو میں سے صرف پانچ مریضوں یا اموات کو کورونا وائرس سے متاثرہ دکھایا جا سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

اس لیے صوبے میں سب اچھا ظاہر کرنے کے لیے کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی پانچ فی صد سے زائد تمام اموات کی وجوہات کو چھپایا جا رہا ہے۔ان کے مطابق اگر منصفانہ طور پر بڑی تعداد میں ٹیسٹ کیے جائیں تو صرف بلوچستان میں روزانہ ہزاروں لوگوں کا ٹیسٹ مثبت آنے کا خدشہ ہے جبکہ لاکھوں لوگ اس سے پہلے ہی متاثر ہو چکے ہیں، جن میں بلا تخصیصِ امیر و غریب ہر طبقے کے افراد شامل ہیں۔


ایسی کشیدہ صورتحال میں بالخصوص ایسے کئی خاندان ،جو گزشتہ تین چار ماہ سے جزوی اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بے روزگار چلے آرہے ہیں، بری طرح سے پس رہے ہیں۔امیر وں کے پاس سہولیات خریدنے کے لیے پیسہ ہے، جبکہ سفید پوش لوگوں کے لیے ہاتھ پھیلانا مشکل ہے۔ اگر صوبہ بلوچستان کے ہسپتالوں کی بات کریں تو ان میں نہ صرف سہولیات کا فقدان ہے بلکہ کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج میں مصروف عملے کے لیے مناسب حفاظتی لباس PPEsبھی موجود نہیں (اس کا ایک مظاہرہ ہم لوگ اپریل میں دیکھ چکے جب ڈاکٹروں کو تھانوں میں بند کر دیا گیا تھا اور افواجِ پاکستان کے سربراہ کو مداخلت کرنا پڑی، ہم اپنے ایک گزشتہ کالم میں اس حوالے سے لکھ چکے ہیں)۔

ہسپتالوں میں حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ اب مریضوں کو رکھنے کے لیے مناسب جگہ ہی میسر نہیں۔ ان کے مطابق جہاں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری جیسے طاقتور انسان کے بھائی کے لیے ہسپتال میں جگہ نہیں، وہاں بے بس عوام کو کون پوچھتا ہے؟
اپنے گھرکے حوالے سے بتاتے ہوئے محترمہ کہتی ہیں عید پر لاک ڈاؤن مکمل ختم ہونے کے بعد اس وائرس نے بڑی تیزی سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور خود وہ، ان کے شوہر، چھوٹا بیٹا، بہت سے ہمسائے، عزیز و اقارب، خاندان کے افراد، سب اس وقت کوروناوائرس کا شکار ہیں اور سب کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔

یکم جون 2020 کو کورونا وائرس ہی کی وجہ سے ان کے سسر کا بھی انتقال ہو گیا۔محترم وزیرِ اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے وہ روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر ان الفاظ میں اپیل کرتی ہیں " جناب وزیرِ اعظم ! آپ اس لیے وزیرِ اعظم بنے کہ ہم نے پورے ملک سے آپ کودیانتدار اور اپنا ہمدرد سمجھ کر منتخب کیا کہ آپ ہمارے مسائل حل کریں گے، آپ ہمارے لیے امید کی کرن تھے، آپ ہماری امیدوں کا مرکز تھے۔

آپ کو اس لیے نہیں منتخب کیا تھا کہ آپ ہمارے مسائل میں مزید اضافہ کریں۔خدا کے واسطے ہماری مدد کریں، ہمارے مسائل حل کریں۔ خدا کے لیے بلوچستان کے غریب عوام کی مدد کے لیے کچھ اقدامات کریں۔خدا کے واسطے ہم پر رحم کریں، خدارا لاشوں پر سیاست مت چمکائیں۔ خدارا ہمارے بزرگوں کومرنے سے بچائیں۔ریاست ماں ہوتی ہے، خدارا اس کو اتنا ارزاں نہ کریں، اس ہرے بھرے باغ کو مٹی میں مت رولیں، ہمارے بزرگوں کا بچا لیں، ہماری عوام کو بچا لیں، ہم لوگوں کو بچا لیں، ہم لوگوں پر رحم کریں۔

پاکستان پر رحم کریں۔پاکستان کو باقی رہنے دیں، اسے تباہ مت کریں"۔
اپنے پیغام میں وہ عالمی میڈیا ، صدرِمملکت، وزیرِ اعظم، گورنر بلوچستان سے اپیل کر رہی ہیں کہ خدارا آ کر خود حالات کا جائزہ لیں اور بلوچستان کے لوگوں کو تباہ ہونے اور مرنے سے بچائیں اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کچھ سنجیدہ اقدامات کریں۔
یہ پیغام لکھنے کے بعد کم سے کم ہم میں کچھ بھی اور لکھنے کا یارا نہیں۔

اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ اگر صرف کوئٹہ میں روزانہ اتنی اموات ہو رہی ہیں تو قومی سطح پر پیش کردہ پورے صوبے کے اعداد و شمار میں انھیں کم کیوں دکھایا جا رہا ہے؟اور اصل تعداد کو چھپانے میں کیا حکمت کارفرما ہے ؟ضروری ہے کہ اگر یہ غفلت ہے تو اس کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے اوراس کا فی الفور سدِباب کیا جائے۔ کیا محترم وزیرِاعظم بلوچستان کی اس بیٹی کی پکار کو درخورِاعتنا سمجھتے ہوئے توجہ فرمائیں گے اور اصلاحِ احوال کے لیے اقدامات کا حکم دیں گے ؟کیا فرزندانِ بلوچستان چئیرمین سینیٹ،ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور محترم سینیٹر انوار الحق کاکڑ اس جانب توجہ فرمائیں گے ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :