پاکستان میں سماجی بدامنی میں میڈیا کا کردار

جمعہ 18 دسمبر 2020

Faisal Rehman

فیصل رحمان

امن و سلامتی اور سماجی استحکام انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔یوں تو غذا،لباس اور مکان بھی انسانوں کے لئے اہمیت رکھتے ہیں لیکن معاشرے کو سماجی استحکام اور امن و سلامتی کی ان سے بھی زیادہ ضرورت پیش آتی ہے۔خاص طور پر پاکستان میں جہاں مسلم اکثریت کے علاوہ دیگر مذاہب اور عقائد کے ماننے والے بھی رہتے ہیں تو ایسے میں ایک دوسرے کے مذہب ، کلچر ، رسم و رواج کے احترام سے ہی معاشرے میں امن کی فضا کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

دور حاضر میں سماجی استحکام اور امن کے فروغ کے لئے میڈیا ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا ہوا کے رخ کی مانند ہے وہ جس طرف اور جس رخ کو اپنائے گی اسی طرح لوگوں تک کوئی بھی معلومات پہنچے گی۔ اگر میڈیا معاشرے کے امن اور استحکام کے فروغ کے لئے مثبت انداز اپنائے گی تو معاشرے میں مثبت اثرات نظر آئیں گے۔

(جاری ہے)

لیکن موجودہ صورتحال میں میڈیا کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔

میڈیا نے ریٹنگ کی بازگشت اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں سماجی استحکام اور امن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں ایسا کیا بدل گیا ہے کہ لوگ اختلافِ رائے پر کسی کی جان لینے تک چلے جاتے ہیں۔ الفاظ کے پتھر حقیقی پتھروں میں بدل گئے ہیں ۔ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر متشدد اور انتہاپسند ہونے لگا۔ جہاں تعلیمی نظام کی بوسیدگی، سماجی انصاف کی کمی، نظام عدل کی ناکامی اور طبقاتی تقسیم اس عدم برداشت کی وجوہات میں شمار کیے جاتے ہیں وہیں بعض لوگ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے لئے میڈیا کو بھی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔


میڈیا جو پاکستان کا چوتھا ستون ہے، اس کی اہمیت پاکستان کے سیاسی حالات میں معلومات اور ذہن سازی تک محدود نہیں رہی۔دہشت گردی جیسے پیچیدہ مسائل اور معروضی حالات میں میڈیا اور معاشرے کے تعلق کی نوعیت بہت واضح نہیں ہے۔عمومی طور پر یہ یقین کیا جاتا ہے کہ میڈیا پر جو دکھایا جا رہا ہے وہ معاشرے کا آئینہ ہے مگر ہمارے ہاں میڈیا پر اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جو رویے میڈیا پر اجاگر کیے جا رہے ہیں وہ معاشرے میں پنپ رہے ہیں؟
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا ارتقا زیادہ پرانی بات نہیں۔

وہ دور جب میڈیا پر دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کو زیادہ ریٹنگ والے پروگرام قرار دے دیا گیا۔ٹاک شوز بڑی اہمیت کے حامل ہو گئے۔ اس وقت چینلز کم تھے تو بہت سے ایسے اینکرز کو راتوں رات شہرت کا راستہ مل گیا جو زیادہ بد تمیزی اور بد لحاظ ہو کر سیاست دانوں سے سوال کرتے تھے۔سوال کے مواد پر سے توجہ ہٹ گئی اور جارحانہ انداز لوگوں کی پہچان بننے لگا۔

ہماری صحافتی برادری میں اس نوعیت کی صحافت کو بد تہذیبی نہیں بلکہ نڈر صحافت کہا گیا۔اگرچہ چند ناقد آوازیں صحافت کے بگڑتے ناک نقشے پر اٹھیں مگر واہ واہ کا شور اتنا زیادہ تھا کہ وہ آوازیں اپنا اثر کھو بیٹھیں۔اینکرز کی کامیابی کا معیار یہ طے ہوا کہ جو زیادہ لڑائی کرائیگا وہ ذیادہ بڑا اینکر بنے گا۔ چند نامور صحافی ہی اقدار کے اس انحطاط سے خود کو ابھی تک محفوظ رکھ پائے ہیں۔


مگر بحیثیت مجموعی ریٹنگ کی اس دوڑ میں کسی کو یہ کھوج لگانے کا وقت نہیں ملا کہ معلوم کر سکے کیسے اور کہاں صحافت کے اصولوں میں “جو بِکتا ہے وہ دِکھتا ہے“ جیسے سنہری اصول شامل ہو گئے۔اس اصول کی سب سے بڑی مثال کرائم شوز ہیں جو ہر چینل کے بقول سپانسر کے پسندیدہ پروگرام ہیں۔
”جو بِکتا ہے وہ دِکھتا ہے“ کی دکان سوشل میڈیا کے آنے سے مزید چمک گئی۔

جو ذرا سا دم صحافتی اقدار میں بچا تھا وہ سوشل میڈیا کے ہلے گلے کی نذر ہو گیا۔ مواد کے تنوع اور انحطاط کے شکار میڈیا نے سوشل میڈیا کی ہیجان خیز ی سے اپنا پیٹ پالنا شروع کر دیا۔
اس کی ایک مثال معصوم شکل والا وہ بچہ ہے جس کی کلاس روم میں جارحانہ باتوں کو سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ ملی اور پھر ملین ویوز لینے کے لئے بڑے نیوز چینل کی خبروں اور مارننگ شوز نے اس بچے کو سٹار بنا دیا۔

بچہ تو معصوم ہے اس کو کیسے اس بات کا الزام دیا جا سکتا ہے، مگر جو پیغام اس سارے قصے سے دیکھنے والوں کو ملا وہ یہی تھا کہ کسی اور خوبی یا فن کی وجہ سے آپ کے بچے کو اپنا آپ منوانے کے مواقع ملیں یا نہ ملیں مگر اس کا جارحانہ انداز اسے میڈیا کی جانی پہچانی شخصیت بنا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کو قابو کرنا ناممکنات کا قصہ ہے مگر ٹی وی چینلز جہاں بیشتر پیشہ ور صحافی کام کرتے ہیں وہاں اس طرح کی عدم احتیاط کا الزام کس کو دیا جائے۔

ٹی وی پروگراموں میں روز الزام تراشی کا ایک سلسلہ بغیر کسی ثبوت کے چلتا ہے جہاں لوگوں کے ایمان سے لے کر ان کی حب الوطنی پر شکوک کا اظہار برملا کیا جاتا ہے۔اس کے ردعمل میں چند مثالیں ایسی ملتی ہیں جہاں اس الزام تراشی کے متاثرین نے مختلف پروگراموں اور چینلوں کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی کرنیکی کوشش کی مگر چینلوں نے اپنی روش نہیں بدلی۔

کئی صحافیوں کی خبریں جھوٹی اور ذہنی اختراع ثابت ہوئیں مگر ان کے خلاف صحافتی برادری نے کم ہی لب کشائی کی۔اس غیر معمولی روش کو دیکھتے ہوئے ایسے واقعات بھی ہوئے جہاں مختلف صحافیوں کی خبروں کو ملک کے خلاف سازش قرار دے دیا گیا۔بدقسمتی سے صحافتی اقدار کے جنازے کو کندھا دینے والے اس لڑائی میں بھی خاموشی سے پسپا ہو گئے۔
مصلحت اندازی کا شکار میڈیا اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے کوئی اجتماعی مہم نہ چلا سکا۔

ہمیں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے خلاف قومی محاذ بنانے کی ضرورت ہے۔یہ محاذ بغیر میڈیا کی شراکت کے ممکن نہیں، جس طرح سے مختلف چینلوں پر بیٹھے ہوئے صحافی کم اینکرز ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے ہیں، کیا ایسے چینلوں اور صحافیوں کی ساکھ عوام کے سامنے قائم ہے؟
کیا معاشرہ اپنے سدھار کے لیے اس میڈیا کی طرف رجوع کرے گا؟ ریٹنگ کا بہاوٴ کبھی کم بھی ہو جائے گا مگر عدم برداشت کا جو کلچر اس معاشرے کو جکڑ چکا ہے اس کے شکنجے سے آزادی ایسے ہی مشکل رہے گی۔ جب تک ’میڈیا گْرو‘ ’جو بِکتا ہے وہ دِکھتا ہے‘ میں منطق، دلیل، حقائق اور ثبوت جیسے عناصر شامل نہیں کریں گے تب تک الزام تراشی، عزت اچھالنے، اور احترام نہ کرنے کے رحجان میں کمی مشکل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :