خود کا قتل خود سے

بدھ 10 جون 2020

Faislan Shafa

فیصلان شفاء اصفہانی

اگر ہم کچھ دہر کے لیے یہ سوچنے کے لیے تھوڑا سا وقت نکالیں کی ایسی کونسی چیز ہے جس سے انسان سب سے زیادہ پیار کرتا ہے اور وہ جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کوئی ایک گھنٹہ لگائے یا ایک منٹ ہمارے پاس ایک ہی جواب آتا ہے۔وہ چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔اپنی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں جان جو اسے  ہر چیز سے عزیز ہے. اپنی جان ہی وہ واحد اور آخری چیز ہے جسے انسان حد سے زیادہ پیار کرتا ہے۔

اور مجھے جو بات حیران کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ کب،کہاں،اور کیسے؟ اور کیوں؟ لوگ اپنی جان کو خود سے جدا کر دیتے ہیں۔کسی اور کا تو پتہ نہیں لیکن میں خود  یہ بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ انسان کی زندگی ہی وہ واحد چیز ہے جو خدا کی طرف سے اسے ملی ہے جس کا شکر وہ اپنی پوری زندگی کی محنت لگا کر بھی ادا نہیں کر سکتا۔

(جاری ہے)

آج کل ہمارے معاشرے میں ایسی کیا چیز ہے؟ ایسی کیا بات ہے؟جو انسان کو اس بات پر مجبور کرتی آرہی ہے کہ وہ اپنی جان کا دشمن بن رہا ہے اور وہ خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہا ہے۔

اور مجھے حیرت اس بات پہ ہوتی ہے کہ کوئی ایسی رنگین دنیا کو چھوڑ کر جانے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ سوچنا تو دور کی بات خیال بھی کیسے آ سکتا ہے.  آجکل ایک ٹرن سا بنا ہوا ہے کئی ایسے بچے اور بچیاں خودکشی کر رہے ہیں۔ اف اللہ جو اس دنیا کی رونق ہیں اور اس دنیا کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے  پیدا ہوئے ہیں اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہی لوگ اس دنیا کو چھوڑ کے جا رہے ہیں.میرے پیارے ملک پاکستان میں خودکشی (سوسائیٹز)کا ٹرین عروج پر ہے۔

اور اب اس ناسور نے پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان کی طرف بھی رخ کر لیا ہے اور اس نے اس وادی کے خوبصورت بچوں اور بچیوں کو متاثر کر دیا ہے۔حال ہی میں ضلع استور میں ایک  بچی اس ناسور بیماری  خودکشی کی ضد میں آگئی۔جس کی عمر کھیلنے کی تھی کودنے کی تھی ماں باپ کو تنگ کرانے کی تھی آج وہ  پورے علاقے کو ویران کر کے جا چکی ہے۔اور یہ پورے علاقے کے لئے ایک افسوس ناک واقع ہے. اللہ جانے اس بچی کی خودکشی کرنے کی وجہ کیا تھی۔

وجہ جتنی بھی بڑی تھی؟جو بھی تھی؟ لیکن کوئی جواز نہیں بنتا ہے کہ آپ اپنی جان لے خدارا,خدارا اپنی قیمتی جانوں پر رحم کریں۔یہ اللہ کی طرف سے آپ کو نوازنے والا ایک بہت بڑا تحفہ ہے اور اس کی قیمت آپ کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے۔اور چند دن قبل لاہور میں بھی ایک بچے نے (first year) فرسٹ ایئر میں نمبر کم آنے کی وجہ سے خودکشی کرلی اور اپنے گھر والوں کو آخر میں ایک خط چھوڑ دیا کہ میرے نمبر کم آنے کی وجہ سے میں خودکشی کر رہا ہوں۔

بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان ہمارے بچے آجکل اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ ایک امتحان میں نمبر کم آنے کی وجہ سے اپنی جان تک دے دیتے ہیں.تمام پاکستانی طلباء اور دنیا کے تمام طلباء سے مخاطب ہوکر میں یہ پیغام دینا چاہتا  ہوں کی کوئی امتحان میں نمبر کم آنے کی وجہ سے خودکشی کر رہا ہے تو کوئی کسی اور وجہ سے ایک بات سب طلباء جان لے۔
 ایک پیپر ایک امتحان اور آج کا یہ مشکل وقت آپ کے پورے مستقبل کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔

شاید ہمارے طلباء یہ بات بھول چکے ہیں کہ اصل جو مستقبل شروع ہوتا ہے وہ  (intermediate)انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے بعد شروع ہوتا ہے۔آپ کے نمبر آپ کی پہچان نہیں کر سکتے کہ آپ میں کتنی صلاحیتیں ہیں۔اور مجھے حیرانگی اس بات پہ ہوتی ہے کی زیادہ تر خودکشی کرنے والے طلباء نویں دسویں, گیارہویں, بارہویں کے طلباء ہیں۔ایک بات سب طلباء جان لے کی اصل جو تعلیم کا سلسلہ جاری ہوتا ہے وہ انٹرمیڈیٹ کے بعد ہوتا ہے۔

اس کے بعد جو تعلیم  ہم اور آپ حاصل کرتے ہیں اس تعلیم کے ذریعے آپ کسی بھی چیز کے بارے میں معلومات کرکے بتا سکتے ہیں کہ یہ بات جو ہو رہی ہے صحیح ہو رہی ہے یا غلط ہو رہی ہے۔اور کیوں ہو رہی ہے پر یہاں تو سارا اس کر خلاف ہو رہا ہے۔ ہم اور آپ لوگ تو زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کو خود مار رہے ہیں۔اس سے پہلے کی زندگی آپ کو جینے کا موقع دیں آپ خود اس سے دور جانا چاہتے ہیں۔

اس سے پہلے جتنے بھی طلبہ اپنی جان دے چکے ہیں۔ان کی قیمتی جانوں کو  تو ہم واپس نہیں لا سکتے لیکن اب جو ہمارے سامنے ہماری نئی نسل ہے۔اب اس نسل میں ہم نے اس ناسور کو گھسنے نہیں دینا ہے۔ جنہوں نے اس ملک کو سنبھالنا ہے جو اس ملک کے رہنما ہیں  اور جو اس ملک کو عروج پر لے جانے والے ہیں ان کی زندگیوں کو ہم سنوار سکتے ہیں۔ابھی بھی وقت ہے ذرا غور کریں آپ کو خود جواب مل جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :